کیا نئی حکومت عمران کی لائی مہنگائی نیچے لا پائے گی؟


عمران خان کی فراغت اور شہباز شریف کے نئے وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے بڑا چیلنج اس مہنگائی کو نیچے لانا ہے جو پچھلے چار سال میں آسمان سے بات کرنے لگی ہے۔ نئی حکومت کیلئے اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے علاوہ بنیادی چیلنج مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ سٹیٹ بینک نے پہلے ہی موجودہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح بلند ترین رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے دور اقتدار کے آخری مالی سال 2018 میں پاکستان اکنامک سروے کے مطابق مہنگائی کی شرح 5.2 فیصد تھی، لیکن کپتان حکومت کے پہلے مالی سال 2019 کے صرف پہلے 9 مہینوں میں مہنگائی کی شرح 7 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ مالی سال 2020 میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھتے ہوئے 10.74 ہوگئی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سال 2021 میں بھی رہی۔ عمران خان کی فراغت سے پہلے موجودہ مالی سال کے پہلے 9 مہینے میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد ہو چکی ہے۔ اسی صورت حال کے پیش نظر مرکزی بینک نے شرح سود کو بڑھاتے ہوئے موجودہ مالی سال کے اختتام تک مہنگائی کی شرح گیارہ فیصد سے زائد رہنے کی پیش گوئی کی ہے، جبکہ اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 15 فیصد بتائی جا رہی ہے۔
ملک کے معروف معاشی ماہرین کے نزدیک سابقہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے علاوہ اس وقت ملکی سطح پر مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل اور اجناس کی بلند سطح پر موجود قیمتیں ہیں اور پاکستان کو مقامی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان کی درآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی بھی ملک میں اس مہنگائی کو بڑھا رہی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل، گیس اور اجناس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں، یوکرین اور روس کے تنازع نے تیل و گیس کی قیمتوں کو بہت بلند سطح پر پہنچا دیا، عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتوں میں ‘سپر بوم سائیکل’ آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے قیتمیں بہت بلند سطح پر موجود ہیں، پاکستان میں اس وقت مہنگائی ‘امپورٹڈ انفلیشن’ ہے یعنی درآمدی چیزوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہوئی ہے اور پاکستان کا کمزور روپیہ اسے مقامی صارفین کے لیے اسے مزید مہنگا کر دیتا ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق عالمی منڈی میں تیل و اجناس کی قیمتوں میں فوری طور پر کمی آنے کا کوئی امکان نہیں جس کی وجہ سے شرح سود میں بھی اضافہ کیا گیا، ماہر معیشت ڈاکڑ فرخ سلیم نے بتایا بنیادی طور مہنگائی کی وجوہات کو فوری طور پر دورکرنا بڑا مشکل ہے، نئی حکومت کے لیے دودھ، چینی، گندم، خوردنی تیل اور دالوں کی قیمتیں کم کرنا مشکل ہوگا۔
پاکستان کو رواں مالی سال کے اختتام تک پانچ ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگی کرنی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ جب اسے آئی ایم ایف سے مدد ملے جس کے لیے پاکستان کو سبسڈی ختم کرنا ہوگی، اگلے چند مہینوں میں مہنگائی میں کمی لانا بہت مشکل ہے، ملک کے بجٹ خسارے کا تخمینہ 3500 ارب لگایا گیا تاہم اب یہ حالات ہیں کہ 4500 ارب تک بڑھ جائے گا۔ معاشی اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی بین الاقوامی وجوہات کے ساتھ کچھ پالیسی فیصلے ہوتے ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت صحیح طرح سے نہ لے سکی اور اب اگلی حکومت کا یہ کام ہوگا کہ وہ ان فیصلوں کو کیسے لیتی ہے۔ پالیسی فیصلوں میں کسی چیز کی طلب اور اس کی فراہمی پر حکومتی ورکنگ گذشتہ حکومت صحیح طور پر نہ کر سکی، اِسی طرح ایکسچینج ریٹ اور پرائس منیجمنٹ کے شعبے بھی ہیں جن میں نئی حکومت کو بطور خاص دیکھنا پڑے گا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق حکومت کو صرف پٹرول و ڈیزل کی مد میں بجٹ تک 136 ارب روپے کی سبسڈی دینی پڑے گی اور بجلی کے ساتھ اس سبسڈی کی مالیت 250 ارب روپے ہوگی، نئی حکومت کو ہر روز تین ارب روپے کی سبسڈی ڈیزل اور پٹرول کی قیمت کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لیے دینا پڑ رہی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا آئی ایم ایف کے ساتھ مذکرات کرنا ہوں گے کیونکہ بیرونی ادائیگیاں ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں اور حکومت کو ڈیزل و پٹرول کی قیمت میں 25 روپے تک اضافہ کرنا پڑے گا تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کیا جا سکے، بجٹ خسارے کیلئے ہر سال ساڑھے تین سے چار کھرب روپے ملکی ذرائع اور چودہ سے پندرہ ارب ڈالر بیرونی ذرائع سے حاصل کیے جاتے ہیں، اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے بیرونی ادارے سبسڈی ختم کرنے کا کہتے ہیں اور پٹرول و ڈیزل پر سبسڈی بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے جس روز وزارت عظمی کا حلف لیا اس روز ڈالر کی قیمت 190 روپے سے کم ہوکر 182 روپے پر آگئی اور اسٹاک مارکیٹ بھی مستحکم ہو گئی۔ لہٰذا معاشی ماہرین اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد پاکستانی معیشت سنبھل جائے گی اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

Back to top button