کیا نواز شریف واقعی ثاقب نثار کو ہٹانا چاہتے تھے؟


سوشل میڈیا پر اس وقت یہ بحث جاری ہے کہ کیا سابق وزیراعظم نوازشریف واقعی خود کو معزول کیے جانے کے بعد تب کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار کو ان کے عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ یہ بحث تب شروع ہوئی جب روزنامہ جنگ سے وابستہ سینئر صحافی انصار عباسی نے اپنی ایک خبر میں دعویٰ کیا کہ نواز شریف کی معزولی کے بعد شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمی کے دوران ثاقب نثار کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ایک صدارتی ریفرنس بھی تیار کر لیا گیا تھا جو کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جانا تھا۔ لیکن صدر ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی کی مخالفت پر اس ریفرنس کو ختم کر دیا گیا۔ انصار عباسی کے مطابق جسٹس ثاقب نثار کو بھی اپنے خلاف کھچڑی پکنے کی سُن گن مل گئی تھی۔ تاہم دوسری جانب مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اطلاعات بالکل بے بنیاد ہیں، نواز شریف نے کبھی ثاقب نثار کو ہٹانے کے بارے میں نہ تو سوچا اور نہ ہی کوئی ہدایت جاری کی۔ نواز لیگ والوں کا کہنا ہے کہ ہاں یہ ضرور سچ ہے کہ ثاقب نثار بطور چیف جسٹس نواز شریف کی حکومت کے خلاف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر سازش کر رہے تھے اور میاں صاحب کی وزارت عظمی سے معزولی اسی سازش کا نتیجہ تھی۔
دوسری جانب انصار عباسی کا دعوی یے کہ جب چیف جسٹس ثاقب نثار نے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر فارغ کروایا تو معزول وزیراعظم نے ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن ان کے جانشین شاہد خاقان عباسی نے انہیں اس پر عمل کرنے سے روک دیا۔
اس وقت کے صدر ممنون حسین بھی ریفرنس کی کاپی دیکھ کر چونک گئے رھے۔ سینئر صحافی کے مطابق سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے انہیں بتایا کہ نوازشریف کو کچھ عناصر نے گمراہ کیا تا کہ ثاقب نثار کی چھٹی کروائی جا سکے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنے تحفظات سے شاہد خاقان عباسی کو آگاہ کیا تو انہوں نے فیصلہ تبدیل کر دیا۔ اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ یہ 2017ء کے اواخر یا 2018ء کے شروع کی بات ہے جب شاہد خاقان عباسی نے اٹارنی جنرل کو اپنے دفتر میں طلب کیا۔ شاہد خاقان نے انہیں ریفرنس کی کاپی دکھائی اور اسے پڑھنے کے لئے کہا لیکن اٹارنی جنرل نے اسے پڑھنے سے گریز کیا اور انہیں ریفرنس آگے نہ بڑھانے کے لئے کہا۔ اشتر اوصاف کے مطابق ان کا مؤقف جاننے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے ان سے اتفاق کیا۔
اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایسا کوئی ریفرنس قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ سپریم جوڈیشیل کونسل کے سربراہ بھی خود چیف جسٹس پاکستان ہوتے ہیں۔ قانونی رُکاوٹوں کے علاوہ انہوں نے وزیراعظم کویہ بھی بتایا کہ ایسے کسی صدارتی ریفرنس کا سیاسی اور قانونی حلقوں میں بھی خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ اس سے حکومت اور ن لیگ دونوں کو ہی پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اشتر اوصاف نے وزیراعظم سے یہ بھی کہا جس کسی نے ریفرنس تیار کیا، اسے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کو گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر عائد کردہ الزامات ثابت کرنے ہوں گے، کیونکہ استغاثہ کی قیادت اٹارنی جنرل کو کرنا ہوگی۔
اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ان کے مؤقف سے اتفاق کیا، بعدازاں اس ریفرنس کو کبھی آگے نہیں بڑھایا گیا اور ختم کر دیا گیا۔ اسے سرکاری ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں بنایا گیا۔
انصار عباسی کے مطارق شاہد خاقان عباسی خود ریفرنس کے مسودے کی کاپی لے کر صدر ممنون حسین کے پاس گئے۔ صدر حیران تھے کہ چید جسٹس کے خلاف ریفرنس کے معاملے میں انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سینئیر صحافی کے مطابق نوازشریف کو ایک وزیر سمیت کچھ لیگیوں نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف ریفرنس لانے کا مشورہ دیا تھا اور بتایا تھا کہ اس معاملے میں سپریم جوڈیشیل کونسل میں ایک اہم شخصیت چیف جسٹس کی برطرفی میں حکومت کی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن آخری لمحات میں شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف کو ریفرنس دائر نہ کرنے پر قائل کر لیا۔ نوازشریف نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور ریفرنس کوئی رسمی دستاویز بننے کے بجائے ردّی کی ٹوکری کی نذر ہو گیا۔ تاہم لگی ذرائع تردید کرتے ہیں کہ نواز شریف نے کبھی ثاقب نثار کے خلاف کوئی نااہلی ریفرنس دائر کرنے کے بارے میں کوئی منصوبہ بنایا تھا۔

Back to top button