کیا پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام سچا ہے؟


افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران پاکستان کے لئے مسائل میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب صدر اشرف غنی کی حکومت نے یہ الزام عائد کر دیا کہ پاکستان افغان طالبان کی مدد کر رہا ہے اور اسے اپنی سرزمین پر موجود طالبان کے اڈے فوری طور پر بند کر دینے چاہیں۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہ آنے کے بعد اشرف غنی نے دوبارہ پاکستان کے خلاف بلیم گیم شروع کر دی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر سے افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت بیانات کے اجرا میں تیزی آ گئی ہے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات مذید کشیدہ ہو گے ہیں۔ افغان حکومت کے میڈیا اور اطلاعات کے مرکز کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال نے ایک حالیہ بیان میں پاکستان سے اپنے ملک میں موجود اڈوں کو ختم کرنے کے علاوہ انکی حمایت کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے بظاہر صدر اشرف غنی کے 14 مئی کے جرمن میگزین کو دیئے گئے انٹرویو میں لگائے جانے والے الزامات کی تائید کی ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان سے مالی اور دیگر امداد بدستور مل رہی ہے۔
پاکستانی حکام ان الزامات کی سختی سے تردید کر رہے ہیں۔ لیکن وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے سلیم صافی کو دیئے گئے ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعتراف کیا کہ افغان حکومت کے تقریباً تمام دعوے سچ ہیں کہ پاکستان طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ طالبان رہنماؤں کے اہل خانہ مختلف پاکستانی شہروں میں قیام پذیر ہیں اور افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں اور زخمیوں کو پاکستان منتقل کیا جا رہا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ ’بات یہ ہے کہ طالبان کے خاندان یہاں پاکستان میں رہتے ہیں۔ وہ بارہ کہو اور ترنول اور دیگر شہروں میں رہتے ہیں۔ لہذا پاکستان پر الزام لگانا آسان ہے حالانکہ ہم پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام بالکل غلط ہے۔
افغان امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ افغان طالبان کے کابل پر قبضے کی صورت میں انگلیاں پاکستان کی ہی جانب اٹھیں گی۔ لیکن یہ پاکستان کی کامیابی نہیں ہو گی۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت کوئی ملک بھی افغانستان میں نئی خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان اور فوجی قیادت کے اب تک کے بیانات سے واضح ہے کہ وہ ہمسایہ ملک کی صورت حال کی وجہ سے مزید متاثر نہیں ہونا چاہتا۔ ایسے میں دو بڑے امکانات ہیں جو پاکستان کے لیے غور طلب ہو سکتے ہیں۔ نمبر ایک، کابل میں اشرف غنی حکومت کا دوام یا طالبان تحریک کی دوبارہ اقتدار میں واپسی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی فوج کی واپسی کے بعد سے اشرف غنی کی حکومت سخت دباؤ میں دکھائی دے رہی ہے۔ طالبان نے عسکری میدان میں پیش قدمی کے دعوے کیے ہیں جبکہ افغان حکام ان کی پسپائی کے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ افغان طالبان امریکی فوجوں کے انخلا کے دوران ہی تیزی سے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قابض ہو چکے ہیں اور پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ افغان حکومت کب تک طالبان کو روکے رکھ سکتی ہے، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
پشاور میں افغان امور کو کور کرنے والے صحافی رفعت اللہ اورکزئی کہتے ہیں کہ اطلاعات کے مطابق افغان طالبان امریکی انخلا کے مکمل ہوتے ہی ایک بڑی کارروائی کی تیاریاں کر رہے ہیں، تاہم مبصرین کے مطابق 650 امریکیوں کی کابل میں موجودگی کی وجہ سے شاید ان کے لیے کابل دوبارہ فتح کرنا اتنا آسان نہ ہو، لیکن اگر وہ ایسا کسی صورت میں کر بھی لیتے ہیں تو پاکستان یقیناً اس صورت میں بھی شدید تنقید کا نشانہ بن سکتا ہے۔ افغانستان میں جو بھی ہو، پاکستان کے لیے ہر صورت میں تنقید ہی لکھی ہے۔ اسی دوران امریکی کانگریشنل ریسرچ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو مزید برا کر کے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’افغانستان: بیک گراؤنڈ اینڈ یو ایس پالیسی‘ کے نام سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک مضبوط افغانستان کی نسبت کمزور اور غیرمستحکم ملک کو ترجیح دے گا کیونکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے خوف سے ابھی بھی افغان طالبان کو قابل اعتبار اور بھارت مخالف عنصر کے طور پر دیکھتی ہے۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کابل پر طالبان کے دوبارہ قبضے کی صورت میں پاکستان کو شدید عالمی تنقید کے علاوہ کن مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے؟ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایک شدت پسند گروپ کے اقتدار میں آنے سے دیگر چھوٹے بڑے عسکریت پسند گروپ بھی توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی طالبان دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں لیکن اس کا انحصار افغان طالبان کی ان کی جانب رویے پر ہو گا۔
90 کی دہائی میں جب طالبان پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے تو پاکستانی طالبان کا وجود نہیں تھا لیکن اس کے بعد طالبان کے نظریات سے متاثر ہو کر سرحد پار اس نے جنم لیا تھا۔ افغان طالبان نہ تو پاکستانی طالبان کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں اور نہ کوئی بیان جاری کرتے ہیں۔ ان کے لیے وہ ایسے ہیں جیسے وہ وجود ہی نہیں رکھتے۔
جب ایک صحافی نے حال ہی میں دوحہ میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین سے پاکستانی طالبان کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ان کے زیر اثر علاقوں میں نہیں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ وہ افغان حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں ہیں لہٰذا ان کے بارے میں کابل سے پوچھا جائے۔ یاد رہے کہ افغان طالبان نے امریکہ سے معاہدے میں وعدہ کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ایسے میں ٹی ٹی پی کے خاموش رہنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن اگر ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان میں دوبارہ متحرک ہوتی ہے تو اسلام آباد یقیناً طالبان حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے گا۔ ایسے میں افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا امکان حد درجے کم ہے۔ وہ دباؤ اور بات چیت کے ذریعے انہیں خاموش رہنے پر شاید آمادہ کرلے۔
تاہم افغانستان میں خانہ جنگی میں طوالت کی وجہ سے طالبان مخالف دیگر دھڑے پاکستان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اس کی مثال ’مجاہدین‘ کے لیے پاکستانی مدد کے تناظر میں سوویت یونین کی جانب سے پشاور اور دیگر مقامات میں بم دھماکے تقریباً روزانہ کا معمول تھے۔ پاکستان نے افغان سرحد پر باڑ کا کام تقریباً مکمل کر لیا ہے لیکن کیا وہ سرحد پار سے ایسی کارروائیاں روک سکے گا، اس کا ابھی تجربہ ہونا باقی ہے۔ اسلام آباد میں حکومت کا یہی خیال ہے کہ افغانستان میں لڑائی میں شدت اور عدم استحکام سے افغان پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر آ سکتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی کہتا ہے کہ 15 سے 20 لاکھ پناہ گزینوں کا بوجھ وہ برداشت کر رہا ہے لیکن مزید نہیں کر سکے گا۔ اس بارے میں اس نے وضاحت نہیں دی ہے کہ آیا انہیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دے گا یا نہیں لیکن اگر بین الاقوامی دباؤ بڑھا اور انسانی صورت حال خراب ہوئی تو شاید اسے سرحد کھولنی پڑے۔لیخن پاکستان کی معاشی صورت حال ایسی نہیں کہ وہ مزید پناہ گزینوں کو برداشت کرے۔ پاکستان نے حالیہ کچھ عرصے سے اس خطے کے لیے اپنی پالیسی میں تبدیلی جیو سٹریٹیجک کی جگہ جیو اکنامک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے لیکن افغانستان میں افراتفری اس کے یہ اہداف مشکل بنا دے گا۔ سامان کی آمدورفت ممکن نہیں رہے گی اور علاقائی تجارت سے پاکستان فائدہ نہیں اٹھاسکے گا۔
پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے بڑے سوال یہی ہیں کہ ان تمام منفی اثرات سے خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے اور وہ ایسا کیا کر سکتا ہے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

Back to top button