کیا کپتان دور میں ضیا دور سے زیادہ سنسرشپ ہے؟

آج عمران خان کے ہائیبرڈ دور حکومت میں کہنے کو تو پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن مین سٹریم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دوبارہ سے انہی کڑی پابندیوں اور سنسرشپ کا شکار ہے جن کا سامنا اسے جنرل ضیا کے تاریک مارشل لا دور میں تھا۔
جنرل ضیا کے زمانے کی سینسشپ کا آج کی دور کی پابندیوں سے موازنہ کرنے کے لیے ایک تاریخی واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ ضیا کی فوجی جنتا کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پی ٹی وی پر ایک سرکاری پریس نوٹ کے ذریعے مختصر خبر جاری گئی۔ عوام کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے روٹین کے پروگراموں کی بجائے الغوزہ بجانے والے معروف فنکار خمیسو خان کی پرفامنس نشر کی گئی۔ تاہم جب میزبان نے خمیسو خان سے نجی زندگی اور بچوں کے بارے میں سوال کیا تو خمیسو نے بھٹو کے لئے دعائیہ کلمات ادا کئے اور یوں سرکاری ٹی وی کی تمام احتیاطی تدابیر رائیگاں چلی گئیں جس کے بعد پی ٹی وی کے متعلقہ عملے کو معطل کر دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر جنرل ضیاالحق کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھی۔ پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم اپنی یادداشتوں ‘ہم بھی وہیں موجود تھے’ میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاالحق کی حکومت میں زیادہ وقت جنرل مجیب الرحمان وزارت اطلاعات کے نگران رہے اور ٹی وی والوں کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہاں زیادہ تر لوگ پیپلز پارٹی کے ہم خیال ہیں اور وہ بھی نااہل اور بے وقوف۔ وہ ایسے لوگ کو معصوم کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔
جنرل مجیب کی رائے تھی کہ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچوں کے دوران بھٹو کو پھانسی دی جائے تو رد عمل زیادہ نہیں ہوگا چنانچہ ان کی رائے کو صائب جانتے ہوئے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجا گیا اور بھارت کی ٹیم پاکستان آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی وی کو کس قسم کی سنسر سے گزرنا پڑا، اس صورت حال پر اختر وقار عظیم نے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ کراچی سینٹر سے سندھی زبان میں ڈرامہ چلنا تھا کہانی کچھ اس طرح کی تھی ایک شخص قتل ہوجاتا ہے۔ عدالتیں مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دیتی ہیں مقتول کے خاندان والے سزا کے اعلان کے بعد مجرم کو معاف کردیتے ہیں۔ اس زمانے میں بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا ہائی کورٹ سزائے موت کا اعلان کر چکی تھی بعض حلقوں کی جانب سے ضیاالحق پر دباؤ تھا کہ وہ بھٹو کے لیے معافی کا اعلان کر دیں۔
پی ٹی وی کو سنسر کرنے والوں کو ڈرامہ کی کہانی اور اس تاریخی واقعے میں مماثلت نظر آئی تو انھوں نے ڈرامے کو ‘ناقابل نشر’ قرار دے دیا۔ اختر وقار عظیم بتاتے ہیں کہ ایسے مواقع پر موسیقی کے پروگرام کا انتخاب کیا جاتا ہے کیونکہ غزل، نظم یا کسی اور صنف سخن میں گنجائش ہوتی ہے کہ شعر کا مفہوم کچھ کا کچھ نہ لیا جائے۔ اس رات بھی پوری احتیاط کے ساتھ طے ہوا کہ خمیسو خان کا الغوزہ سنادیا جائے، دھن شروع ہوئی 15 منٹ تک وہ ساز بجاتے رہے اس کے بعد پروگرام کے میزبان نے خمیسوخان کی تعریف کی اور پوچھا زندگی کیسے گذر رہی ہے اور کیا بچوں میں سے کسی کا اس میدان میں آنے کا خیال ہے۔
خمیسو خان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا ‘بچے تو اس میدان میں نہیں وہ تو ٹرک چلاتے ہیں، اللہ بھٹو سائیں کا بھلا کرے جو غریب کا خیال کرتا ہے۔ اس کے دیے ہوئے وظیفے سے گذارہ ہوتا ہے۔’ ان کے اس جملے کے بعد احتیاط دھری کی دھری رہ گئی اور پروگرام چلانے والے سبھی افراد کو معطل کر دیا گیا۔ آج عمران خان کے ہائیبرڈ دور حکومت میں کہنے کو تو پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن میڈیا دوبارہ سے انہی پابندیوں اور سینسرشپ کا شکار ہے جن کا سامنا اسے ضیا کے تاریک مارشل لا دور میں تھا۔