کیا کپتان نے بنی گالہ جائیداد کا جعلی این او سی جمع کرایا؟

اسلام آباد شہر کے لینڈ ریونیو ریکارڈ اور جمائما خان کے بیان حلفی سے انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سال 2003 میں بنی گالہ کی جائیداد کے مالک نہیں تھے لیکن سپریم کورٹ میں جمع کروایا گیا کمپیوٹرائزڈ این او سی عمران خان کے نام پر ہے اور اس کی تاریخ سال 2003 کی ہے۔ یاد رہے کہ این او سی صرف جائیداد کے مالک کے نام پر جاری کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ میں کپتان کی جانب سے ماضی میں بنی گالہ کی زمین ریگولرائز کروانے کے لیے جمع کروایا گیا این او سی جعلی ہے؟
سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا این او سی یونین کونسل بھارہ کہو نے عمران خان کے نام پر 2003 میں ایشو کیا تھا۔ یاد رہے کہ بنی گالہ کی جائیداد عمران خان کے نام پر 11 جون 2005 میں ٹرانسفر کی گئی تھی۔ جمائما خان نے خود 21 ستمبر 2004 کو بنائی گئی ایک پاور آف اٹارنی میں یہ لکھا ہے کہ زمین کی مالک وہ ہیں اور وہ اسے عمران کے نام پر ٹرانسفر کرنا چاہتی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے مطابق یہ ناممکن ہے کہ یونین کونسل یا محکمہ مال کا کوئی دوسرا افسر کسی ایسے شخص کے نام پر این او سی جاری کرے جو جائیداد کا مالک نہیں ہے۔ تاہم دوسری طرف کپتان کے وکیل بابر اعوان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا کمپیوٹرائزڈ این او سی عمران خان کے نام پر ہے اور اس کی تاریخ 2003 ہے۔
اسلام آباد کے محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق جمائما خان نے 300 کنال اور پانچ مرلے زمین اپریل 2002 سے جون 2005 کے درمیان خریدی۔ یعنی جون 2005 تک زمین کی ملکیت جمائما کے نام پر تھی اور قانونی طور پر عمران خان کے نام پر اس کا ملکیتی این او سی جاری نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تو پھر کیا یہ این او سی جعلی ہے؟
سپریم کورٹ کے وکیل اکرم شیخ کے مطابق سپریم کورٹ میں ایک جعلی دستاویز جمع کرانے پر عمران خان کے لئے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ دھوکہ دہی کی نیت سے کی جانے والی جعلسازی کی سزا سات برس تک ہو سکتی ہے جبکہ سپریم کورٹ کو دھوکہ دینا ایک الگ جرم ہے۔ یاد رہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو خط لکھ کر ان کی توجہ اس بات پر مبذول کرائی تھی کہ بنی گالہ کے علاقے میں بلدیاتی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اس پر عمران کے مخالفین نے یہ نقطہ اٹھایا تھا کہ ان کی اپنی رہائش گاہ اسلام آباد کے زون تھری میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا میں واقع ہے اور اس کی تعمیر بظاہر اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس 1979 اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری زوننگ ریگولیشن 1992 کی خلاف ورزی ہے کیونکہ زون تھری میں کوئی نجی رہائش گاہ یا فارم ہاؤس بنانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ اس علاقے کے قدیم رہائشیوں کو وہاں رہنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن وہ اپنے گھروں میں کسی قسم کی توسیع نہیں کر سکتے ہیں۔