کیا کپتان کا اپنے ملازم کو کابینہ میں شامل کرنا جائز ہے؟

اپنے دوستوں کو نوازنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے عمران خان کی جانب سے اپنے ملکیتی شوکت خانم ہسپتال کے تنخواہ دار سربراہ ڈاکٹر فیصل سلطان کو اپنا معاون خصوصی برائے صحت مقرر کئے جانے کے بعد ان پر مفادات کے ٹکراؤ کے حوالے سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ کرونا وبا کے دوران ڈاکٹر فیصل سلطان پر قومی وسائل کو غیر قانونی طور پر شوکت خانم ہسپتال کے لئے استعمال کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔
کپتان نے ڈاکٹر ظفر مرزا سے کرپشن الزامات پر استعفیٰ لینے کے بعد 3 اگست کے روز شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر فیصل سلطان کو اپنا معاون خصوصی برائے صحت تعینات کیا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق ڈاکٹر فیصل سلطان کرونا کے معاملے پر وزیر اعظم عمران خان کے فوکل پرسن بھی ہیں اور ان کا عہدہ اب وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔ زلفی بخاری اور عون چوہدری جیسے قریبی دوستوں کو نوازنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے عمران خان کی جانب سے اب اپنے شوکت خانم ہسپتال کے سربراہ کو اہنا معاون خصوصی برائے صحت مقرر کئے جانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی جارہی ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے ملکیتی ہسپتال کے سربراہ کا وزارت صحت جیسے اہم قومی ادارے کے معاملات بطور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے چلانا واضح طور پر مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں کرونا وبا پھیلنے کے بعد سے ڈاکٹر فیصل سلطان کو کپتان نے اہم ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں اور اس عرصے کے دوران ان پر ریاستی وسائل کو غیر قانونی طور پر شوکت خانم ہسپتال میں استعمال کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ان حالات میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پورے ملک میں اس اہم منصب کے لئے کوئی غیر متنازعہ ایکسپرٹ دستیاب نہ تھا جو کپتان نے ڈاکٹر فیصل کو اپنا معاون خصوصی لگا کر اقربا پروری کی ایک نئی مثال قائم کردی۔
ڈاکٹر فیصل سلطان گذشتہ کئی سالوں سے شوکت خانم میموریل ہسپتال کے چیف ایگزیکٹوآفیسر ہیں۔ وہ متعدی امراض کے ماہر ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کی ویب سائٹ پر موجود کوائف کے مطابق انہوں نے 1987 میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا جبکہ 1992 اور 1994 میں امریکن بورڈ آف میڈیسن اور امریکن بورڈ آمتعد امراض سے پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومے کیے۔ان کا شمار وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ترین اور پرانے ترین ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ عمران خان کو ان کی صلاحیتوں پر اتنا اعتماد ہے کہ شوکت خانم ہسپتال کے علاوہ خیبر پختونخواہ میں اپنے گذشتہ دور حکومت میں انہیں خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کا سی ای او تعینات کروایا تھا۔ تحریک انصاف حکومت کے قیام کے فوراً بعد مختلف شعبوں میں اصلاحات اور 100 روزہ ایجنڈے کے تحت ٹاسک فورسز کا قیام عمل میں لایا گیا تو صحت کے حوالے سے قائم کی گئی ٹاسک فورس کے ارکان میں ڈاکٹر فیصل سلطان بھی شامل تھے۔پاکستان میں کرونا کی وبا پہنچی تو وزیر اعظم نے انہیں اپنا فوکل پرسن مقرر کرتے ہوئے اہم ذمہ داریاں سونپیں۔
یاد رہے کہ29 جولائی کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا تھا کہ میں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں وزیراعظم عمران خان کی خصوصی دعوت پر عالمی ادارہ صحت چھوڑ کر پاکستان آیا تھا، میں نے محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ معاونین خصوصی کے کردار سے متعلق منفی بات چیت اور حکومت پر تنقید کے باعث استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔بعدازاں کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا استعفیٰ منظور ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ تاہم یہ بات سامنے آئی تھی کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے، بھارت سے ادویات اور خام مال کی درآمد سمیت مختلف الزامات پر انکوائری کمیٹی کی مطمئن کرنے میں ناکامی پر ڈاکٹر ظفر مرزا سے استعفیٰ طلب کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اپریل 2019 میں وزیر صحت عامر محمود کیانی کو بھی ادویات سکینڈل کی بنا پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے ایک طرف تو اپنے معاون خصوصی برائے صحت کو کرپشن کے الزامات پر عہدے سے ہٹا دیا اور دوسری طرف ایک ایسے شخص کو اسی عہدے پر تعینات کر دیا جس پر شوکت خانم ہسپتال کا سربراہ ہونے کی وجہ سے واضح طور پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام عائد ہوتا ہے۔