کیا یوتھیے ججز قابو کرنے کا حکومتی منصوبہ کامیاب ہو پائے گا؟

اگرچہ 26ویں ترمیم نے عمراندار ججز کہلانے والے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روک دیا ہے لیکن حکومت کو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ نئے چیف جسٹس حکومت کے احکامات پر چلیں گے۔ نئے چیف جسٹس نےجسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل کرتے ہوئے انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن بنا کرعدلیہ کو کنٹرول کرنے کے حکومتی گیم پلان کو سبوتاژ کر دیا ہے۔

معروف صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے اہنے تازہ تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حکمران اتحاد کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ آیا وہ ایسا آئینی بینچ تشکیل دے پائیں گے جس کی انہیں خواہش ہے۔ حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے کہا کہ چیف جسٹس کو آئینی بینچ کی سربراہی کرنی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو اس بینچ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ بعض مبصرین کے نزدیک یہ بیان عدالتی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔

صحافی زاہد حسین کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے بعد حکومت کوتوقع تھی کہ ان کے اقدام سے دو سینئر ترین ججز یقنی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سائیڈ لائن ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایک کھرے جج کے طور پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اسکرپٹ پر نہیں چلیں گے۔  اس وقت تقسیم شدہ عدالت کو متحد کرنا اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو بہتر بنانا اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

لکھاری زاہد حسین کا مزید کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے ایک متنازع آئینی ترمیم منظور کروانے کے ایک ہفتے بعد ہی یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ حکمران اتحاد آئین کو مسخ کرنے کے ایک اور منصوبے پر غور کر رہا ہے۔ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت عدلیہ پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط کرنے کی خواہاں ہے کیونکہ  26ویں ترمیم منظور کروانے کے باوجود حکومت عدالتِ عظمیٰ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 حکمران اتحاد سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر 23 ججز کرنے کا نیا قانون لانے کی منصوبہ بندی بھی کررہا ہے۔ زاہد حسین کے بقول حکومت کی جانب سے ججز کی تعداد میں اضافے کا مقصد زیرِالتوا مقدمات کا بوجھ کم کرنا نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ ججز کا اضافہ کرنا ہے۔ اس اقدام سے حکومت کی جانب سے عدلیہ کو مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس کے نہ صرف عدالتی نظام پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے جمہوری عمل بھی متاثر ہوگا۔

زاہد حسین کے مطابق اس وقت عدلیہ کو اپنی آزادی کا تحفظ کرنے میں سخت ترین امتحان کا سامنا ہے جبکہ حکومت آئین کو مزید مسخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ایسی صورت حال میں حکومت کے اعلیٰ ترین جج کا کردار انتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عہد کیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کی شاخوں کی طاقت کو تحفظ فراہم کریں گے۔ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر پورا اتریں گے۔ تاہم ایک سخت ترین امتحان ان کا منتظر ہے۔

Back to top button