گورنر بدلنے کے باوجود بلوچستان میں پی ٹی آئی تقسیم کا شکار

وزیراعظم عمران خان بلوچستان میں گورنر تبدیل کرنے کے باوجود تحریک انصاف میں دھڑے بندی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کا ایک واضح ثبوت نئے گورنر ظہور آغا کی تقریب حلف برداری میں پارٹی کے ناراض رہنما یار محمد رند اور ان کے ساتھیوں کی عدم شرکت تھی۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے نئے گورنر کی تقرری کے وقت بھی یار محمد رند اور انکے ساتھیوں کو اعتماد میں نہیں لیا جس کی وجہ سے ان کی ناراضی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
سید ظہور آغا کی گورنر بلوچستان کی حیثیت سے حلف اٹھانے کی تقریب میں پارٹی کے رہنماﺅں اور کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ لیکن اس میں تحریک انصاف بلوچستان کے صدر اور اسمبلی میں پارلیمانی رہنما سردار یار محمد رند اور ان کے حامی نظر نہیں آئے۔ ذرائع کے مطابق اس کی بڑی وجہ تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات ہیں جو اب بھی برقرار ہیں۔ کہا جاتا رہا یے کہ دراصل قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اپنے پُرانے دوست ظہور آغا کو گورنر بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے نئے گورنر کی تقرری کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ وفاق سے منسلک بلوچستان کے جو مسائل ہیں سید ظہور آغا ان کے حل میں مددگار ثابت گے. تاہم بلوچستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ اس کے اندرونی اختلافات ہیں جن میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ظہور آغا کی تقریب حلف برداری کے وقت ہال میں اگرچہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور کارکن موجود تھے لیکن زیادہ تعداد تحریک انصاف کے رہنماﺅں اور کارکنوں کی نظر آئی۔ مگر سردار یار محمد رند اور ان کے حامیوں کی کمی پھر بھی محسوس کی گئی۔ تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ سردار یار محمد رند کی رائے کو گورنر کی تقرری میں بھی اہمیت نہیں دی گئی جس کے باعث وہ اور ان کے حامی شریک نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ گورنر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے قریبی دوست ہیں۔ جب سے گورنر کی تبدیلی کی باتیں شروع ہوگئیں تو قاسم سوری کی یہ کوشش تھی کہ ظہور آغا ہی گورنر بن جائیں اور وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگئے۔ سید ظہور آغا اگرچہ تحریک انصاف کے پرانے کارکن ہیں لیکن وہ بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پر بہت زیادہ نمایاں نہیں رہے۔ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ قاسم سوری اور بلوچستان کے نئے گورنر کی دوستی تحریک انصاف کی وجہ سے نہیں بلکہ سکول کے وقت سے ہے۔ قاسم سوری خصوصی طور پر ان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے کوئٹہ آئے۔
سید ظہور آغا کے گورنر کی حیثیت سے نامزدگی کے ساتھ ہی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے ساتھ ان کی نوجوانی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دو دیگر لوگ بھی نظر آرہے ہیں۔ اس تصویر میں ان کے سامنے ایک تربوز پڑا ہے اور وہ ایک کچی دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس تصویر میں گورنر نے اپنے بچپن میں ٹوپی الٹی پہنی ہوئی ہے۔ جب تقریب حلف برداری کے بعد صحافیوں نے اس تصویر کی جانب قاسم سوری کی توجہ دلائی تو انھوں نے کہا کہ وہ ان کی ایک یادگار تصویر ہے۔ انھوں نے اس تصویر کے حوالے سے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ تصویر بلوچستان کے کسی علاقے کی نہیں بلکہ افغانستان کے بلوچستان کے ضلع چاغی سے متصل صوبہ ہلمند کی ہے۔ تاہم صحافیوں نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ نوجوانی میں وہاں کیوں گئے تھے۔
شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ جب وزیر اعظم کے ایک حالیہ دورے کے بعد بلوچستان میں گورنر کی تبدیلی کی بات شروع ہوئی تو ’تحریک انصاف میں مختلف لابیز اپنی پسند کی شخصیات کو گورنر کے طور پر لانے کے لیے کوشاں تھیں لیکن قرعہ ڈپٹی سپیکر کے دوست کے نام نکلا۔‘ تحریک انصاف سات اراکین کے ساتھ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں دوسری بڑی جماعت ہے۔ تحریک انصاف بلوچستان کے صدر اور اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی رہنما سردار یار محمد رند کو یہ شکایت ہے کہ بلوچستان میں دوسری بڑی اتحادی جماعت کی حیثیت سے پارٹی کو حکومت میں جو اہمیت ملنی چاہیے وہ اسے نہیں دی جارہی ہے۔ سردار یار محمد بلوچستان کے وزیر تعلیم تھے لیکن وزیر اعلیٰ سے اختلافات کی بنیاد پر انھوں نے حالیہ بجٹ سیشن میں وزارت سے استعفے کا اعلان کیا اور اپنا استعفیٰ گورنر کو بھیج دیا۔
انکے قریبی ذرائع کے مطابق رند جہاں وزیر اعلیٰ بلوچستان سے نالاں ہیں وہیں ان کو یہ شکایت تھی کہ سابق گورنر جسٹس ریٹائرڈ امان اللہ خان یٰسین زئی کے دور میں گورنر ہاﺅس کے دروازے بھی پارٹی کے کارکنوں کے لیے بند تھے۔ جب اپریل میں وزیر اعظم عمران خان کوئٹہ آئے تو تحریک انصاف کے ایک وفد نے سردار یار محمد رند کی قیادت میں ان سے ملاقات کی جس میں انھوں نے گورنر کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ پارٹی کی کسی شخصیت کو گورنر بنایا جائے تاکہ جس طرح دوسرے صوبوں میں گورنر ہاﺅسز میں پارٹی کے کارکنوں کو رسائی حاصل ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی ان کو رسائی حاصل ہو۔ مطالبے کے مطابق پارٹی سے تعلق رکھنے والے پرانے کارکن کی گورنر کی حیثیت سے تقرری تو ہوئی مگر سردار یار محمد رند اور ان کے حامی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے نہیں آئے۔ جب یہ سوال تحریک انصاف کے پارلیمانی کمیٹی کے ترجمان بابر یوسفزئی سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پارلیمانی کمیٹی کو گورنر کی تقرری کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔‘ انھوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو ظہور آغا کی نامزدگی کے حوالے سے سرے سے علم نہیں تھا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ مستقبل قریب میں تحریک انصاف بلوچستان میں اختلافات ختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔