گھر کے ملازمین نے نور کے زندہ بھاگنے کی کوشش ناکام بنائی

اسلام آباد میں 20 جولائی کو ایک معروف بزنس مین کے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہونے والی 27 سال لڑکی نور مقدم کے کیس کی عدالتی کارروائی کے دوران پولیس نے جج کو بتایا کہ مقتولہ دو روز سے قاتل کی یرغمالی تھی اور اس نے اپنی جان بچانے کے لیے دوسری منزل پر موجود ایک کمرے کے روشن دان سے نیچے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن اسے گھر کے چوکیداروں نے دوبارہ قاتل کے حوالے کر دیا جس نے بعد میں اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ چنانچہ اسلام آباد پولیس نے گھر کے چوکیداروں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ تفتیش کے دوران جب چوکیداروں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اس واقعے کے بارے میں قاتل کے والدین کو بھی آگاہ کرچکے تھے تو پولیس نے لڑکے کے والدین کو بھی حراست میں لے لیا۔ قاتل کے والدین نے جب تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ انہوں نے اس واقعے کا علم ہونے کے بعد اپنے بیٹے کا ذہنی علاج کرنے والے تھراپسٹ کو فون کرکے آگاہ کر دیا تھا تو پولیس نے اسے بھی شامل تفتیش کرتے ہوئے اسکا قائم کردہ ذہنی دباؤ کا بحالی سنٹر بھی سیل کر دیا جو کہ بغیر لائسنس ذہنی دباؤ کے مریضوں کا علاج کر رہا تھا۔
دوسری جانب گرفتاری کے بعد قاتل ظاہر جعفر کے والد نے کہا ہے کہ وہ نور کے والد کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور وہ ان سے مدد کی درخواست کریں گے۔ انھوں نے نور مقدم کے قتل کے حوالے سے کہا کہ "یہ ایک بہت ہی گھناؤنا جرم ہے اور میں چاہتا ہوں کہ انصاف ہو۔ ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور اسکی والدہ عصمت آدم جی کو 25 جولائی کو ڈیوٹی مجسٹریٹ اسلام آباد، شہزاد خان کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور دو ملازمین کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے نہیں پولیس کے حوالے کر دیا۔ دوسری جانب ڈی سی اسلام آباد کی جانب سے ذہنی دباؤ کے بحالی سنٹر تھراپی ورکس کے دفتر کو سیل کرنے کے احکامات پر بھی عمل درآمد کر دیا گیا۔
پولیس نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مقتولہ نور مقدم نے روشن دان سے باہر چھلانگ لگائی اور اگر ملازمین پولیس کو بروقت اطلاع کر دیتے تو اس واردات کو روکا جا سکتا تھا۔
اس موقع پر ملزمان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل ذاکر جعفر اپنے بیٹے کے ہاتھوں لڑکی کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انصاف ہو ملزم کو سخت سزا ہو۔ تاہم وکیل کا استدلال تھا کہ ان کے موکل عبوری ضمانت پر ہیں اس کے باوجود بھی پولیس نے حراست میں لیا ہوا ہے۔ اور وہ پولیس کے خلاف توہین عدالت کا کیس رجسٹر کرائیں گے۔ وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ان کے موکل خود کراچی سے اسلام آباد پہنچے اور خود ہی پولیس سٹیشن گئے۔ عدالت میں پولیس کے تفتیشی کا موقف تھا کہ ضمانت کے حوالے سے جج صاحب کا آرڈر مکمل ہی نہیں ہوا اور نہ ہی عدالت میں شورٹی بانڈ جمع کرائے گئے ہیں، اس لئے ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کیا ہوا ہے۔ ڈیوٹی میجسٹریٹ کی عدالت میں پیشی کے موقع پر ملزم کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو نہیں اور نہ اس کا سامنا کیا۔ ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل کا عدالت میں موقف تھا کہ وہ کبھی ظاہر جعفر کی حمایت نہیں کریں گے۔پولیس نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی نے بھاگنے کے لیے روشن دان سے باہر چھلانگ لگائی، ملازمین نے اسے روکا اور پھر ملزم مقتولہ کو کھینچ کر واپس گھر کے اندر لے گیا جہاں اسے ذبح کر دیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اگر ملازمین پولیس کو بروقت اطلاع کع دیتے تو یہ قتل روکا جا سکتا تھا۔ تفتیشی افسر نے جج کو مزید بتایا کہ قاتل کے ہمسائے نے پولیس کو اس معاملے کی اطلاع دی اور وہ تین منٹ میں وقوعہ پر پہنچ گئی۔پولیس نے عدالت سے درخواست کی کہ ملازمین کا ریمانڈ دیا جائے ملازمین کے موبائل فونز بر آمد کرنے ہیں۔ وکیل صفائی نے مزید کہا کہ میرے موکل قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ میرے موکل چاہتے ہیں کہ انصاف ہو، ملزم کو سخت سزا ہو۔، اس موقع پر ملزم ظاہر جعفر کے والد نے ہاں کہہ کر اپنے وکیل کی تائید کی۔ اس موقع پر نور مقدم کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ ہماری استدعا ہے کہ قاتل کے والدین کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 20 جولائی کی رات ظاہر کو ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا جہاں نور کے والدین کے مطابق ’ملزم نے تیز دھار آلے سے قتل کیا‘ اور ’سر جسم سے الگ کیا‘ تھا۔ پولیس نے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا تھا۔
ترجمان پولیس کے مطابق ’مدعی شوکت مقدم جو کہ مقتولہ نور کے والد ہیں کے بیان اور اب تک موجود شواہد کی روشنی میں گرفتار ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی، گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے والدین اور گھریلو ملازمین سمیت متعدد افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ ان تمام افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جا رہا ہے جن کا اس قتل کے ساتھ بطور گواہ یا کسی اور حیثیت میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔‘ پولیس کا کہنا ہے کہ ان تمام افراد اور اس قتل سے جڑے تمام بالواسطہ یا بلا واسطہ محرکات کے شواہد اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔’
خیال رہے کہ قتل کا یہ واقعہ تھانہ کوہسار کی حدود میں ایف سیون سیکٹر میں پیش آیا تھا۔ حکام کو شواہد کی فرانزک کے علاوہ تھیراپی ورکس کے مالکان سے ملاقات کی بھی ہدایت دی گئی تھی۔
تھراپی ورکس سنہ 2007 سے اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں کاؤنسلک اور سائیکو تھراپی کی سہولت مہیا کر رہا ہے۔ اس بحالی مرکز نے تصدیق کی تھی کہ ملزم ظاہر یہاں ذہنی بحالی کا کورس کر رہا تھا مگر اس نے اپنا کورس مکمل نہیں کیا تھا۔‘ ملزم کے ادارے سے منسلک ہونے کے دعوؤں پر کمپنی کا کہنا تھا کہ ظاہر جعفر کو تھراپسٹ کی حیثیت سے کبھی بھی کسی مریض کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘ تاہم سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں بظاہر وہ اسی ادارے کی جانب سے ایک معروف نجی سکول میں بچوں کو لیکچر دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ نور کے قتل کے واقعے سے قبل پولیس کے مطابق ملزم ظاہر کی والدہ عصمت جعفر نے تھراپی ورکس میں فون کر کے وہاں سے ٹیم کو بلوایا تھا۔ پولیس حکام نے بتایا تھا کہ گھر کے چوکیدار نے واقعے کے دوران ظاہر کے والد کو فون پر صورتحال بتائی گئی مگر انھوں نے خود کچھ کرنے کی بجائے اور پولیس کو بتانے کی بجائے اپنی اہلیہ کو بتایا جنھوں نے آگے تھراپی ورکس سے رابطہ کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ظاہر تھیراپی ورکس میں باقاعدہ کلاسز لیتا تھا۔
ظاہر کی والدہ عصمت جعفر کی لنکڈ اِن پروفائل کے مطابق وہ خود بھی فیزیو تھراپی اور نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ سے منسلک ہیں جس میں سائیکوتھراپی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی پروفائل میں لکھا ہے کہ وہ تھراپی ورکس سے 2015 سے منسلک ہیں تاہم تھراپی ورکس کی ویب سائٹ پر موجود فکیلٹی میں ان کا نام درج نہیں ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ’ظاہر کی والدہ عصمت نے تھراپی ورکس رابطہ کر کے بتایا کہ ’میرے گھر جا کر دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے۔‘ جس کے بعد تھراپی ورکس کے اہلکار وہاں گئے۔’پولیس کے مطابق ظاہر نے تھراپی ورکس کے ایک ملازم پر بھی حملہ کیا اور وہ شدید زخمی ہوا، اس کا آپریشن بھی ہوا ہے۔ تاہم ابھی وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ پولیس کو بیان دے سکے۔
یاد رہے کا قاتل ظاہر جعفر کراچی میں قائم ایک بڑی نجی کنسٹرکشن کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر ذاکر جعفر کا بیٹا ہے اور کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ظاہر وہاں ‘چیف برانڈ سٹریٹجسٹ’ کے عہدے پر فائز تھا۔ تاہم اب کمپنی کی ویب سائٹ سے اس کے نام اور عہدے کو حذف کر دیا گیا ہے۔