یوتھیوں کی کھوکھلی دھمکیوں نے پی ٹی آئی کی سیاست کا جنازہ کیسے نکالا؟
وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور کی جانب سے عمران خان کے ساتھ جیل میں مبینہ بد سلوکی کے رد عمل میں پورا ملک بند کر دینے کی دھمکی عملی طور پر ایک گیدڑ بھبکی سے زیادہ کچھ نہیں چونکہ پچھلے دو ماہ میں تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی جو بھی کالز دی گئیں وہ ہی ناکام ہی رہیں جس کے بعد پارٹی کارکن بھی مایوس ہو چکے ہیں۔
یاد ریے کہ پی ٹی آئی نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکام نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ جاری رکھا تو "حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے” کے لیے ملک گیر شٹ ڈاؤن کیا جائے گا۔ ا علی امین گنڈا پور نے وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت دونوں کو "انتباہ” جاری کرتے ہوئے یہ بچگانہ الزام عائد کیا یے کہ عمران خان کو جیل کھانا نہیں دیا جاتا اور انکے سیل کی بجلی معطل ہے۔ اسکے علاوہ انہیں لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں۔انہوں نے ایکس پر جاری اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں سب کو انتباہ دے رہا ہوں، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم پاکستان کو بند کرنے اور اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا منصوبہ دیں گے۔
گنڈا پور نے یہ بیان تب جاری کیا جب خان کی بہنوں علیمہ اور عظمیٰ خان نے اڈیالہ جیل میں قید اپنے انقلابی بھائی سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ حکام کی جانب سے عمران خان کے ساتھ "برا سلوک” کیا جا رہا ہے۔ اسکے بعد عمران خان سے منسوب ایک پیغام ان کے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا گیا جس میں 72 سالہ سیاستدان نے کہا کہ انہیں حراست میں "ذہنی تشدد” کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ میرے ڈاکٹروں، اہل خانہ اور وکلاء پر کئی ہفتوں تک مجھ سے ملنے پر پابندی لگا دی گئی۔ یاد ریے کہ عمران کے پچھلے دو ہفتوں سے اڈیالہ جیل کے دیگر ہزاروں قیدیوں کی طرح ملاقاتوں کی اجازت نہیں تھی، جسکی وجہ سکیورٹی وجوہات بتائی گئی تھیں۔ لیکن علیمہ خان کا دعوی ہے کہ ان کے بھائی کے جیل سیل میں دو ہفتے تک بجلی بھی نہیں تھی اور انہیں باہر جا کر ورزش کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ اسکے علاوہ انہیں جو کھانا دیا جا رہا تھا وہ بھی ناکافی تھا۔
تاہم جیل حکام کا کہنا ہے کہ عمران کے تمام الزامات جھوٹے ہیں اور انہیں حسب سابق جیل میں ہر طرح کی سہولت اور مرضی کا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے جس میں دیسی مرغی اور مٹن کے علاوہ ہر طرح کا فروٹ اور جوسز بھی شامل ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی قیادت اپنی چار احتجاج کی کالز ناکام ہونے کے بعد پانچویں کال دینے کا رسک لے گی۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے اس سے قبل 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں پاکستان کی پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب ایک احتجاج کی کال دی تھی تاکہ خان کی رہائی کا مطالبہ کیا جا سکے اور ساتھ ہی اس آئینی ترمیم کی مخالفت کی جائے جو پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے اعلیٰ جج کی تقرری کا اختیار دیتی ہے۔ یہ ترمیم 21 اکتوبر کو منظور کی گئی تھی۔ تاہم، پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج تب منسوخ کر دیا جب حکومت نے جیل میں عمران خان کے میڈیکل چیک اپ کے لیے ڈاکٹرز کی ٹیم بھیج دی۔ ڈاکٹروں نے خان کو دیکھا اور بتایا کہ وہ "خیریت” سے ہیں۔
اس سے پہلے وزیر اعلی خیبر پختون خواہ نے اسلام اباد کی طرف مارچ کی تین کالز دی جو ناکام رہیں اور خود گنڈاپور بھی ہر مرتبہ پراسرار طور پر غائب ہو گئے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اب حکومت پی ٹی آئی کی احتجاج یا ملک گیر شٹ ڈاؤن کی دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ سینئیر صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں میں اس حوالے سے ہم آہنگی کا فقدان ہے کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔
انکا کہنا ہے کہ کچھ رہنما ایجی ٹیشن کا مشورہ دیتے ہوئے خان کے جیل میں ہونے کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک تحریک شروع کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ انہیں اپنے لیڈر کی صحت سے متعلق کوئی تشویش ہے، اسے محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی طلعت حسین نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کی پورا پاکستان بند کر دینے کی دھمکی صرف ایک گیدڑ بھبکی ہے چونکہ تحریک انصاف اب ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ گزشتہ چھ مہینوں میں، پی ٹی آئی نے ملک گیر ایجی ٹیشن شروع کرنے کی کئی بار کوشش کی، لیکن وہ لوگ اکٹھا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی ائی کے ہمدرد اور ووٹرز اب مایوس ہو چکے ہیں۔