PTIکے باغی رہنما نیازی کیخلاف میدان میں آنے کو تیار

عمران خان کی جگہ پارٹی کے دیرینہ رہنماؤں کو چھوڑ کر بیرسٹر گوہر خان کو چئیرمین کا امیدوار نامزد کرنے کے بعد جہاں ایک طرف پی ٹی آئی میں آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی کے باغی رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارٹی کو ہائی جیک نہیں ہونے دیں گے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے ان باغی رہنماؤں میں بہت سے ایسے بانی رہنما شامل ہیں۔ جنہوں نے انیس سو چھیانوے میں عمران خان کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی قائم کی تھی۔ تاہم بعد میں چیئر مین کی غلط پالیسیوں پر اپنی راہیں جدا کر لیں ۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن پاکستان نے پی ٹی آئی کو بیس روز کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی پر پارٹی اپنے انتخابی نشان ” بلے سے محروم ہو سکتی ہے۔ ایسے میں پارٹی کے باغی رہنماؤں نے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کو یقینی اور شفاف بنایا جاسکے۔

واضح رہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے درخواست گزار اور پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر پہلے ہی نظریاتی کارکنوں کو متحرک ہونے کا پیغام دے چکے ہیں۔ معتبر ذرائع نے امت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے دیگر باغی بانی رہنماؤں سعید اللہ نیازی، فوزیہ قصوری، کمانڈر رضاحسین شاہ ، خواجہ امتیاز، محمود خان، یوسف علی، اعظم خان، انشاہ میر سمیت متعدد نے بھی عملی طور پر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تا کہ پارٹی کے نظریاتی کارکنان کومتحرک کیا جا سکے اور نام نہاد انٹراپارٹی الیکشن کے ذریعے دوبارہ پارٹی کو قبضہ گروپ کے ممکنہ تساط سے بچایا جاسکے۔

ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں عمران خان کے فرسٹ کزن اور پی ٹی آئی پنجاب کے بانی صدر سعید اللہ نیازی جبکہ پی ٹی آئی ویمن ونگ کی بانی صدر فوزیہ قصوری کی جانب سے عنقریب ویڈیو پیغامات متوقع ہیں۔ جس میں وہ ممکنہ طور پر سزا یافتہ چیئر مین عمران خان کی ان پالیسیوں کا ذکر کریں گے۔ جس کی وجہ سے پارٹی آج اس حال کو پہنچی اور ساتھ ہی نظریاتی کارکنوں کو میدان میں نکلنے کی کال دیں گے۔ خاص طور پر ایسے موقع پر جب الیکشن کمیشن پاکستان نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ ذرائع کے بقول باغی بانی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ موجودہ پارٹی قیادت اگر انٹرا پارٹی الیکشن کراتی ہے تو وہ ماضی کی طرح شفاف نہیں ہوں گے۔ من پسند لوگوں کو عہدے دے کر الیکشن کمیشن پاکستان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تا کہ انتخابی نشان” بلے کو بچایا جا سکے۔ چنانچہ باغی بانی رہنماؤں کا خیال ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے نظریاتی کارکنوں کو متحرک کیا جائے۔ اگر ان کے خدشات کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن محض خانہ پری ثابت ہوتے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن پاکستان سے رجوع کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سعید اللہ نیازی، عمران خان کے سگے چچا کے بیٹے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ بعد ازاں وہ پی ٹی آئی پنجاب کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔ تاہم انہوں نے عمران خان سے راستے جدا کر لئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی جس مقصد کیلئے بنائی گئی تھی۔ عمران خان نے بطور چیئر مین، پارٹی کو غلط راستے پر ڈال دیا۔ اسی طرح فوزیہ قصوری پی ٹی آئی کے ویمن ونگ کی بانی صدر تھیں۔ وہ مسلسل سترہ برس اس عہدے پر رہیں۔ تاہم پارٹی کی غلط پالیسیوں پر بطور احتجاج انہوں نے دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے دو ماہ قبل استعفی دید یا تھا وہ اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں۔ یادر ہے کہ وہ عمران خان کے دست راست صاحبزادہ جہانگیر عرف چیکو کی بہن ہیں ۔ چیکو برطانیہ اور یورپ میں عمران خان کے فوکل پرسن ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ اسی طرح پی ٹی آئی صوابی کے سابق جنرل سیکریٹری یوسف علی اور سابق صوبائی وزیر اعظم خان ایڈووکیٹ بھی پریس کانفرنسیں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاکہ نظریاتی کارکنوں کو گھروں سے باہر آنے کا پیغام دیا جا سکے۔ اس سلسلے میں ایک مشاورتی اجلاس بھی متوقع ہے۔ ذرائع کے بقول نئی صف بندی کے حوالے سے پی ٹی آئی کراچی کے سابق بانی صدر کمانڈ ر رضا حسین شاہ، پی ٹی آئی ٹیکسلا اور برطانیہ کے سابق بانی صد خواجہ امتیاز ایڈووکیٹ، اسلام آباد کے سابق پی ٹی آئی عہدیدار محمود خان، لاہور کے انشا اور عمیر سمیت سب اس وقت اکبر ایس بابر سے رابطےمیں ہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل پارٹی کے بانی رہنما اکبر ایس بابرکا ایک بیان میڈیا میں آیا تھا۔ جس میں انہوں نے نظریاتی کارکنوں کو متحرک ہونے کی کال دی تھی ۔ انہوں نے ملک گیر مہم چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ نظریاتی کارکنان پارٹی میں شفاف انتخابات کرانے کیلئے آگے آئیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر شفاف انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہوئے تو عام انتخابات میں ” بلے” کا نشان برقرار رہنا اور انتخابات میں حصہ لینا خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اکبر ایس بابر کے اس پیغام کا نظریاتی کارکنوں پر کیا اثر ہوا؟ یہ معلوم کرنے کیلئے ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ”میری تو قعات سے کہیں بڑھ کر رسپانس آیا ہے۔ میرے اس اعلان کے بعد سے ملک بھر سے نظریاتی کارکنوں کی کالوں اور پیغامات کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ جلد مشاورتی اجلاسوں اور پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ نظریاتی کارکنان و ہمدردوں کا اصرار ہے کہ پارٹی کو بچانے کیلئے فوری عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے ۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ ایک سوال پر اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ الیکشن نظریاتی کارکنوں کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ ورنہ پھر وہی فصلی لٹیرے اور اجرتی سیاستداں پارٹی پر قابض ہو جا ئیں گے۔ جنہوں نے دولت کمانے اور ہوس اقتدار کی خاطر پارٹی کے کارکنان کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا اور آج پارٹی کو اس حال میں پہنچایا۔ شفاف انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی اچھی ساکھ کے حامل لوگوں پر مشتمل مرکزی و صوبائی الیکشن کمیشن تشکیل دے۔یادر ہے کہ دو ہزار تیرہ میں پی ٹی آئی کے آخری انٹرا پارٹی الیکشن میں حامد خان ایڈووکیٹ الیکشن کمشنر تھے۔ تاہم یہ انٹرا پارٹی الیکشن متنازعہ ہو گئے تھے۔ اس میں ہونے والی دھاندلی پر جسٹس (ر) وجیہ احمد کی

مائنس عمران، تحریک انصاف کا مکمل وڑنا یقینی ہو گیا؟

پوری رپورٹ موجود ہے۔

Related Articles

Back to top button