کیا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے آنے والی ہے؟

سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ کی طرف سے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو دی گئی خصوصی عدالت کی سزا کو برقرار رکھنے کو فیصلے کو کچھ مبصرین ایک نئے سفر کا آغاز کہہ رہے ہیں اور کچھ کے خیال میں اس فیصلے سے ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کےچار رکنی بینچ کی جانب سے یہ فیصلہ ان متفرق اپیلوں کے حوالے سے دیا گیا جو 2020 ء میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق تھیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سابق آمر کو دی جانے والی سزا کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ 12 اکتوبر 1999 ء کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹنے والے پرویز مشرف کے خلاف ایک اسپیشل کورٹ قائم کیا گیا تھا جس نے دسمبر 2019 ء میں سابق آرمی چیف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کی آرٹیکل چھ کے مطابق سزائے موت دی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ایک سپہ سالار کو اس طرح غداری کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت کا فیصلہ دیا گیا ہو۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید، معروف وکیل حامد خان اور ممتاز قانون دان رشید اے رضوی کے علاوہ کئی لوگوں نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کا ملک کے طول و عرض میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ فیصلے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے۔ ”پوری وکلا برادری اس تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ آرٹیکل چھ کے تحت ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کرے، جنہوں نے آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کی تھی۔‘‘

دوسری جانب سیاسی مبصرین نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ ممتاز صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ صحیح سمت کی جانب ایک صحیح قدم ہے۔ ”قانون کی حکمرانی کے لیے یہ ایک نئے سفر کی شروعات ہے۔ اگر اس پر جرنیل ناراض ہیں تو انہیں ناراض رہنے دو لیکن یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا۔‘‘

سیاسی مبصر ابصار عالم کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک وارننگ کے طور پہ سامنے آئے گا جو مستقبل میں کسی بھی طرح کا ایڈونچر کرنے کی کوشش کریں گے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق دیا ہے اور اس کی بھرپور حمایت کی جانی چاہیے۔ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ عوام کو کسی بھی طرح کے ایڈونچر سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا، ”بلکہ ہم تو سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو بھی قانون کے دائرے میں لے کر آئے جو مشرف کے ساتھ اس میں ملوث تھے۔

دوسری جانب پاکستان میں ایک طویل عرصے تک فوج کی حمایت کرنے والے حلقوں کی یہ حجت رہی ہے کہ اگر ایک سابق آرمی چیف کو غداری کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے تو اس سے فوج کے مورال پر اثر پڑے گا۔ ماضی میں مشرف کے خلاف قانونی چارہ جوئی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان کشیدگی پیدا کردی تھی۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ فیصلہ بھی سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔ تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ طاقتور حلقوں کی طرف سے اس فیصلے پہ سخت ناراضگی ظاہر کی جا سکتی ہے۔ ”یقینا اس فیصلے کو پسند نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ ایک علامتی پیغام ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسری طرف سے اس علامتی پیغام کا کیا جواب آتا ہے، جو شاید فوری طور پر نہیں آئے۔‘‘نعیم خالد لودھی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس کشیدگی کی وجہ سے ممکنہ طور پر الیکشن بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ ” کشیدگی بڑھنے کی صورت میں یہ ممکن ہے کہ الیکشن کو ملتوی کر دیا جائے یا منسوخ کر دیا جائے کیونکہ سپریم کورٹ نے نہ صرف مشرف کے خلاف یہ فیصلہ دیا ہے بلکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کے حوالے سے بھی فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ اگر وہ فیصلہ بھی اس طرح آتا ہے جس میں صرف ایک ہی فریق کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو کشیدگی میں یقینا اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘

دوسری جانب سینئر صحافی حامد میر کے خیال میں جی ایچ کیو کی طرف سے کسی بھی طرح کے ایڈونچر کو کوئی حمایت نہیں ملے گی۔ ”اگر جی ایچ کیو کوئی ایڈونچر کرتا بھی ہے، تو اس کو کسی بھی عدالت سے رعایت نہیں ملے گی کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتیں کسی بھی غیر آئینی ایکشن کی توثیق نہیں کر سکتیں۔‘‘

ابصار عالم بھی کسی ایڈونچر کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ”میرے خیال میں سپریم کورٹ کی طرح جی ایچ کیو بھی اس بات کو محسوس کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے کہ سیاست اور پارلیمانی امور میں مداخلت ماضی کی طرح ہمیشہ جاری نہیں رکھی جا سکتی اور یہ کہ ماضی کی غلطیوں کو صحیح کرنے کے لیے کچھ اصلاحی اقدامات ضروری ہیں اور ان اقدامات میں شاید پہلا قدم یہ ہو کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تسلیم کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔‘‘

Related Articles

Back to top button