انٹرٹینمنٹ کے لائسنس پر نیوز دکھانے پر ‘نیو ٹی وی’ کا لائسنس معطل

پاکستان الیکڑونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے تنبیہ کے باوجود غیرقانونی نیوز و کرنٹ افیئرز پروگرام نشر کرنے پر نیو ٹی وی کے لائسنس کو فی الفور معطل کردیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 30 اپریل کو بھی پیمرا نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر نیو ٹی وی پر 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا تھا۔ تاہم چینل کی جانب سے قوانین کی مستقل خلاف ورزی پر اب پیمرا نے ان کا لائسنس معطل کردیا ہے۔


پیمرا کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ نیو ٹی وی کو انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ وہ لائسنس کیٹیگری کی خلاف ورزی بند کرے اور لائسنس کے قواعد و جواب کے تحت غیرقانونی نیوز و کرنٹ افئیرز پروگرام کی نشریات بند کرے۔ بیان میں بتایا گیا کہ چینل نے ان احکامات کی پیروی کرنے کے بجائے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم عدالت نے نیو ٹی وی کی اپیل رد کرتے ہوئے پیمرا کے احکامات کو درست قرار دیا۔ پیمرا کا کہنا تھا کہ نیو ٹی وی اصل مواد نشر کرنے کے حوالے سے متعدد مواقع فراہم کیے گئے لیکن لائسنس انٹرٹینمنٹ کے اصل پروگراموں پر واپسی میں ناکام رہے اور پیمرا کے احکامات کے ساتھ ساتھ قابل احترام اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق 28 اپریل کو چینل کو پروگرامنگ کے اصل مواد کو فوری نشر کرنے کے حوالے سے آخری نوٹس جاری کیا گیا لیکن انہوں نے اس پر بھی عملدرآمد نہیں کیا لہٰذا پیمرا نیو ٹی وی کے لائسنس کو فوری معطل کرتا ہے۔ اس سے قبل پیمرا نے وزیراعظم کی تنخواہ میں اضافے کی جعلی خبر نشر کرنے پر نجی ٹی وی چینل ‘نیو ٹی وی’ پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔مذکورہ معاملے پر ایک پیمرا عہدیدار نے بتایا تھا کہ ’چینل پر وزیراعظم کی تنخواہ میں اضافے کی خبر نشر کرنے کا معاملہ ایک ٹاک شو کے دوران اٹھایا گیا تھا‘۔
نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ چینل نے 2015 کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اور باضابطہ طور پر اس کی تردید بھی نہیں کی۔ تاہم ٹی وی چینل انتظامیہ نے سماعت میں دعویٰ کیا کہ اسی ٹاک شو کے دوران تردید نشر کردی گئی تھی لیکن پیمرا نے اس دلیل کو اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ تردید، اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہونے کے بعد کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ پیمرا کے زیادہ تر فیصلوں کا اختتام قانونی چارہ جوئی پر ہوتا ہے اور پیمرا کے خلاف دائر 500 مقدمات اس کی جانب سے دیے گئے فیصلوں اور جرمانے سے متعلق ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button