سوات یونیورسٹی کی پروفیسر کا انتظامیہ پر ہراسانی کا الزام

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں قائم سوات یونیورسٹی کے ویمن کیمپس کی خاتون پروفیسر نے پولیس کو اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی اور دھمکیوں کے خلاف درخواست جمع کروائی ہے۔
خاتون پروفیسر کی جانب سے ڈسڑکٹ پولیس آفیسر سوات کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کو سوات یونیورسٹی کے انتظامی عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ خاتون پروفیسر نے درخواست میں ان موبائل نمبرز کی تفصیل بھی فراہم کی ہے جن سے انہیں کالز اور پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ یہ چھ مختلف نمبر ہیں جن میں سے ایک برطانیہ کا ہے۔ سوات یونیورسٹی کے ترجمان نے پروفیسر کے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔ سوات یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق یہ خاتون سوات یونیورسٹی کے وویمن کیمپس میں انتظامی عہدے پر تعینات ہیں اور انہیں دو مرتبہ مناسب کارگردگی نہ دکھانے پر شوکاز نوٹسز جاری ہو چکے تھے۔ ترجمان کے مطابق یونیورسٹی کے اندر اس طرح کی شکایات کے ازالے اور متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کے لیے شعبہ قائم ہے۔ اگر خاتون پروفیسر کو کوئی شکایت تھی تو ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس شعبے سے رجوع کرتیں اور اگر ان کی شکایت کا ازالہ نہ ہوتا تو اس کے بعد پولیس سے رجوع کرتیں۔ ایس ایچ او تھانہ تانجو مجید عالم نے بتایا کہ خاتون پروفیسر کی جانب سے دو روز قبل درخواست جمع کروائی گئی ہے۔ جس میں واٹس ایپ اور ایس ایم ایس پیغامات بھی منسلک ہیں۔ جن نمبروں سے واٹس ایپ اور ایس ایم ایس پیغامات بھیجے گئے ہیں، پولیس اس وقت ان کی تصدیق کر رہی ہے اور متعلقہ محکمے سے تصدیق کے بعد ہم فی الفور مقدمہ درج کر لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ خاتون نے اپنی درخواست کے ہمراہ ایک بڑی فائل ثبوتوں کے طور پر فراہم کی ہے جس کی جانچ کےلیے کچھ وقت درکار ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خاتون نے ایسی درخواستیں بھی جمع کروائی ہیں جو انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو کارروائی کےلیے دی تھیں۔ مجید عالم کا کہنا تھا کہ پولیس اس وقت پوری تن دہی سے اس درخواست پر اپنی تفتیش کررہی ہے۔ خاتون نے جن نمبروں سے متعلق شکایات کی ہیں ان کی سی ڈی آر بھی نکالی جا رہی ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں طویل عرصے سے دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا تھا۔ ان کا کہنا تھا رات کے دو دو بجے مجھے فون کیے جاتے اور پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ مجھے واضح طور پر کہا گیا کہ اگر میں ناجائز مطالبات کو تسلیم نہیں کروں گی تو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب مجھے انتظامی عہدوں سے فارغ کیا گیا تو ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یہ آغاز ہے۔ ان کے مطابق انہیں کہا گیا کہ ’اگر اب بھی مجھے سمجھ نہ آیا تو پھر بات اس سے آگے بھی بڑھے گئی اور اس پر مزید جو کچھ ہو گا وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ انہوں نے وائس چانسلر کو خط کے ذریعے سارے معاملے سے آگاہ کیا تھا۔ اس خط کو لکھنے کے بعد مجھ پر بے انتہا دباؤ آیا۔ مجھے کہا گیا کہ میں اپنی شکایت واپس لے لوں۔ دباؤ کے بعد ایک مرحلے پر میں شکایت واپس لینے کےلیے تیار بھی ہو گئی تھی۔ جس کےلیے میں نے شرط رکھی کہ مجھے معذرت کے دو لفظ لکھ کر دے دیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا معذرت کے دو لفظ کیا لکھتے، انہوں نے مجھے شکایت کا خط واپس لینے کےلیے خط کا نمونہ بھی بھیجا۔ جس پر میں نے انکار کیا تو دباؤ، دھمکیوں اور ہراسانی میں اضافہ ہوگیا۔ پروفیسر کے مطابق میں بتا نہیں سکتی کہ کس طرح میرے دن رات اجیرن کیے گئے ہیں۔ کس کس طرح مجھے ذہنی کوفت میں مبتلا کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ میرے خاندان کے لوگوں پر بھی دباؤ ڈالا گیا۔ ان کا کہنا تھا آخری چارہ کار کے طور پر پولیس سے رجوع کیا ہے اور اب کوئی خوف و ڈر نہیں۔ میرے ساتھ جو ہونا ہے ہو جائے مگر امید ہے کہ اس کے بعد کم از کم سوات یونیورسٹی کے اندر آئندہ کسی کو کسی خاتون کے ساتھ ہراسانی کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button