حکومت، پریشر میں کیوں؟

تحریر: سہیل وڑائچ

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کسی طرف سے خطرہ نہیں، ریاستی ادارے اور حکومت ایک صفحے پر ہیں، اپوزیشن میں ایسا دم خم نظر نہیں آتا کہ وہ کوئی تحریک چلا سکے یا پارلیمان کے اندر اِن ہاؤس تبدیلی لانے کی کوشش کرے۔
بظاہر جو مستحکم صورتحال نظر آ رہی ہے اس میں تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ عوام کو ریلیف دے اور اپنے باقی 3 سال کی اس طرح منصوبہ بندی کرے کہ آئندہ انتخاب بھی جیت سکے مگر تحریک انصاف کی حکومت کسی انجانے پریشر میں ہے۔
اپوزیشن کے خلاف کارروائیاں، کابینہ کے اجلاس میں نواز شریف کو واپس لانے پر صلاح مشورے اور آئے روز احتساب کا نیا سلسلہ شروع کرنے کی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ تحریک انصاف کو کہیں نہ کہیں سے دباؤ محسوس ہوتا ہے اور وہ اس دباؤ سے نکلنے کے لیے اس طرح کے اقدامات اور اعلانات کرتی ہے۔1985سے بالعموم اور 2008سے بالخصوص جو جمہوری یا نیم جمہوری نظام جاری ہے، اس میں ریاستی ادارے ملک کے نظام کے کسٹوڈین بھی ہیں اور وہ اس نظام پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔
دو وزرائے اعظم کو پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ اقتدار سے نکال کر گھر بھیج چکی ہے اگر ملک کی ہیئت مقتدرہ اور عدلیہ حکومت میں کوئی آئینی، سیاسی یا معاشی خرابی دیکھتی ہے تو وہ اس حکومت کو نکالنے پر قادر ہو چکی ہے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے گہرے سوچ و بچار کے بعد اپنے کردار کو ظاہری سے ہٹا کر پسِ پردہ بنا لیا ہے مگر ملک کے معاملات میں کسی بھی کمزوری یا خامی کو فوراً نوٹ کیا جاتا ہے اور اصلاحِ احوال کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
گزشتہ 12سال کے دوران پیدا اور مستحکم ہونے والے اس نظام میں تمام حکومتیں ہی انجانے پریشر میں رہی ہیں۔ حکومتوں کو اپنی خامیوں اور اپنی کمزور کارکردگی پر دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہی حال موجودہ حکومت کا ہے۔ اس نئے نظام میں ریاستی ادارے حکومت کو گاہے گاہے اپنا فیڈ بیک بھی دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ فیڈ بیک خاصا منفی بھی ہوتا ہے جس سے حکومت کو دھچکا لگتا ہے۔
نواز شریف کا علاج کے لیے باہر جانے کا مسئلہ دیکھ لیں، حکومت بات کا بتنگڑ خود بنا رہی ہے حالانکہ نواز شریف کو بھیجنے کی اجازت خود پی ٹی آئی کی کابینہ نے دی، پنجاب حکومت اُن کی تھی، ڈاکٹرز حکومت کے ملازم تھے اور وہ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ رپورٹس ٹھیک تھیں۔ نواز شریف واقعی بیمار تھے، بظاہر تو پی ٹی آئی اس معاملہ کو ہوا دے کر مسلم لیگ ن کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتی ہے، نواز شریف کی بیماری کو بہانہ قرار دینا چاہتی ہے مگر اسی الزام تراشی کے اندر ریاستی اداروں سے محاذ آرائی چھپی ہوئی ہے، جب یہ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کو باہر بھیجنے کے پیچھے کوئی تھا۔
آخر کار یہ لڑائی حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان کشمکش کو جنم دے گی اور شاید پی ٹی آئی اس حوالے سے جو پریشر ڈال رہی ہے کل کو خود اسے ہی اس پریشر کا سامنا کرنا پڑ جائے۔وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار آج کل بہت متحرک ہیں، دورے کر رہے ہیں۔ انٹرویو دے رہے ہیں اگر ان کی تبدیلی ہونی ہے تو سیاسی ہونی چاہئے مگر جس طرح سے نیب ان کے خلاف متحرک ہے اس سے لگتا ہے کہ اگر ان کی سیاسی حمایت برقرار بھی رہی تو وہ نیب مقدمے میں اس بری طرح پھنستے جائیں گے کہ ان کے لئے یہ عہدہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا اس معاملے کو گہری نظر سے دیکھیں تو اس میں بھی دو قسم کے پریشر نظر آتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اندر سے بھی اور ریاستی اداروں کی طرف سے بھی وزیر اعلیٰ بزدار کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا رہے تھے۔ وزیراعظم کو کئی بار یہ ایڈوائس دی گئی کہ پنجاب میں تبدیلی لائیں گے تو تبھی گورننس بہتر ہو گی۔ وزیراعظم اس حوالے سے اب مضبوط موقف لے چکے ہیں اور انہوں نے اپنا سارا وزن وزیر اعلیٰ بزدار کے حق میں ڈال دیا ہے فرض کریں کہ اگر نیب میں بزدار صاحب کے خلاف کارروائی آگے بڑھتی ہے، انہیں وزیر اعلیٰ کا عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے تو اس کا اب لازمی نتیجہ حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان کھینچا تانی ہی ہو گا۔
موجودہ حکومت بھی وہی غلطی دہرا رہی ہے جو ماضی کی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ ریاستی اداروں کی ایسی بھرپور حمایت کے باوجود متذکرہ بالا دو امور پر اختلاف بالآخر بڑھ سکتا ہے اور پھر اس کے نتائج ریاست اور حکومت دونوں کے لئے اچھے نہیں ہوں گے۔
نواز شریف کو واپس لانا ایک سیاسی نعرے کے طور پر تو تحریک انصاف کو سوٹ کرتا ہے لیکن اگر نواز شریف واقعی واپس آ کر جیل چلے جاتے ہیں اور پھر ان کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو حکومت کیا کرے گی؟ نواز شریف بیرون ملک موجود ہوں خاموش رہیں تو تب وہ تحریک انصاف کے لئے بڑا خطرہ ہیں یا وہ ملک کے اندر آ کر جیل میں رہیں تب بڑا خطرہ ہیں۔
میری رائے میں تو حکومت کا زیادہ فائدہ اس میں ہے کہ نواز شریف بیرون ملک ہی رہیں۔ اسی طرح فرض کریں نیب کے ذریعے وزیر اعلیٰ بزدار رخصت ہوں تو تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا لیکن اگر عمران خان خود سیاسی طور پر فیصلے کرتے ہوئے بزدار صاحب کی جگہ پی ٹی آئی کا کوئی اور نمائندہ لے آئیں تو ان کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنے گا۔ ظاہر ہے ان دو امور پر حتمی فیصلہ تو وزیر اعظم نے خود کرنا ہے وہ ایسا حل نکالیں جس سے سیاست اور حالات میں آگ مزید بھڑک اٹھے یا پھر اس آگ پر اپنے فیصلوں سے پانی پھینک دیں؟
افسوس تو یہ ہے کہ کوئی بھی ماضی سے نہیں سیکھتا، چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں سے اختلافات کی خلیج گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر ہر غلط فہمی کا حل نکال لیا جائے باہمی مشورے سے باعزت رستہ نکال لیا جائے تو شاید حکومت کی رخصتی کا مرحلہ نہ آئے مگر جب انائیں لڑتی ہیں جذبات بھڑکتے ہیں تو پھر بالآخر لڑائی ہو جاتی ہے۔ امید ہے اس بار لڑائی سے بچنے کی تدابیر کی جائیں گی۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button