ہوٹلوں میں قید PTI اسمبلی اراکین کی کڑی پہرے داری


22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن سے پہلے لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں شفٹ کیے جانے والے تحریک انصاف کے ممبران پنجاب اسمبلی کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے اور ہوٹل کے اندر آنے اور جانے والوں پر سخت نظر رکھی جا رہی ہے تاکہ کوئی عمرانڈو ایم پی اے فرار نہ ہو جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ہوٹل میں موجود پرویز الٰہی کے حمایتی اراکین اسمبلی کی تعداد 175 ہے جبکہ 13 اراکین اسمبلی اب بھی آگے پیچھے ہیں جن میں سے 7 کے ساتھ پارٹی قیادت کا رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا۔ بتایا گیا ہے کہ دن میں تین مرتبہ ہوٹل میں موجود یوتھیے اراکین اسمبلی کی حاضری لگائی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کو کسی صورت ہوٹل سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں اور تمام ایم پی ایز کو موبائل فون کا استعمال بھی نہ کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ تاہم اس ہدایت پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو پایا۔

دوسری جانب حکومتی اتحاد میں شامل حمزہ شہباز کے حمایتی اراکین اسمبلی علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ کے قریب واقع نجی ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔ اتحادیوں کی قیادت کی جانب سے ن لیگ، پیپلز پارٹی، راہ حق پارٹی اور دیگر آزاد ارکان اسمبلی کو کل 22 جولائی تک رائل سوئس ہوٹل ہی میں رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جمعہ کے روز وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں تمام ارکان اسمبلی حمزہ شہباز کی قیادت میں ہوٹل سے براہ راست پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جائیں گے۔ اسمبلی روانگی سے قبل حمزہ شہباز ہوٹل میں حکومتی اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ ہوٹل میں قیام پذیر حمزہ کے حمایتی اراکین صوبائی اسمبلی کو بھی مخالف جماعتوں کی جانب سے رابطوں سے بچانے کے لیے موبائل فون کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ان اراکین کی حاضری چیک کرنے کے لیے مسلم لیگ ن نے ہوٹل کی لابی میں اپنے کارکنوں کی مستقل ڈیوٹی لگا رکھی ہے تاکہ کوئی رکن آگے پیچھے نہ ہو جائے۔

ذرائع کے مطابق حکومتی اتحاد نے 10 اراکین اسمبلی پر مشتمل 18 گروپس بنا کر ہر گروپ کا ایک سربراہ مقرر کر دیا ہے جو اپنے بندے پورے رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ گروپ ہیڈ کو اپنے اراکین کی ہوٹل میں حاضری، پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت اور پنجاب اسمبلی کی جانب روانگی بروقت یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اراکین اسمبلی کو کسی ناپسندیدہ یا مخالف کیمپ سے آنے والی فون کال سے متعلق گروپ ہیڈ کو بتانے کا پابند کیا گیا ہے تاکہ دشمنوں کی چالوں سے آگاہی رکھی جا سکے۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے ایک قافلے کی صورت ہوٹل سے پنجاب اسمبلی روانہ ہونگے جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت نے تمام تر پارٹی اجلاس ہوٹل میں ہی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بظاہر تو ضمنی الیکشن میں واضح برتری حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف نمبرز گیم کی روشنی میں پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے، لیکن پی ٹی آئی کے لیڈرز جتنے نروس ہیں اس سے کچھ گڑبڑ لگتی ہے۔ تحریک انصاف اور نواز لیگ دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے ممبران اسمبلی توڑنے کی کوششوں کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ دونوں جانب سے الزام لگایا جارہا ہے کہ اراکین پنجاب اسمبلی کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لئے انہیں کروڑوں روپے رشوت کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ ایک جانب تحریک انصاف نے اپنے تین ممبران پنجاب اسمبلی کا حلف نامہ عدالت میں پیش کیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عطا اللہ تارڑ نے انہیں رشوت کی پیشکش کی، جبکہ دوسری جانب نواز لیگ چھوڑنے والے ایم پی اے جلیل شرقپوری کے بارے میں شیخ رشید احمد کی ایک آڈیو لیک ہو گئی ہے جس میں وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ شرقپوری کو بھی مال لگا دیا گیا ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ 22 جولائی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج حمزہ شہباز کے سر پر برقرار رہتا ہے یا پرویز الٰہی ان کی کرسی چھینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟

Related Articles

Back to top button