ضمنی الیکشن جیت کر بھی عمران فوری الیکشن کروانے میں ناکام


سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ 16 اکتوبر کے ضمنی الیکشن میں اکثر نشستیں جیت کر بھی عمران خان اس ”ریفرنڈم“ کا ماحول نہیں بنا پائے جس کے دباؤ میں آکر حکومت فوری نئے انتخابات کا اعلان کر دیتی۔ اتحادی حکومت نے عمران خان کی جانب سے الیکشن جیتنے کے بعد فوری نئے انتخابات کے مطالبے کو سختی سے رد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ نئے انتخابات اپنے وقت پر اگلے سال ہی ہونگے۔ لہذا فی الوقت اس سوال پر توجہ دینا ہو گی کہ فوری انتخاب کے حصول کے لئے عمران خان کو اب کونسی نئی چال کھیلنا ہو گی؟

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروانے کے بعد اقتدار میں آنے والے سیاست دان 1990ء کی دہائی سے ہی بہت ”کائیاں اور تجربہ کار“ شمار ہوتے رہے ہیں۔ لیکن حکومت سنبھالنے کے چند دن بعد ہی یہ لوگ بے بس اور اناڑی نظر آنا شروع ہو گئے جو پنجابی محاورے کے مطابق ”ہن کی کرئیے؟!“والے مخمصے میں گرفتار ہیں۔

دعویٰ ان کا یہ ہے کہ ”ریاست کو دیوالیہ“ ہونے سے بچانے کے لئے انہوں نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنی ”سیاست“ قربان کرنے کی جرات دکھائی۔ مگر ریاست ان کی احسان مندی محسوس نہیں کر رہی۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے مقابلے میں عمران خان نے بھی اپنی سیاست کو مزید جارحانہ بنا لیا ہے۔ وہ روایتی اور سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ساتھ ساتھ پوری توانائی کے ساتھ شہر شہر جاکر اپنا پیغام پہنچانا شروع ہو گئے۔ بھان متی کا کنبہ دِکھتی حکومت کے پاس اس پیغام کے توڑ کے لئے کوئی ”سودا“ نظر نہیں آ رہا۔ سیاسی محاذ پر بے تکے اقدامات لیتے ہوئے وہ مسلسل خفت کا سامنا کر رہی ہے۔ قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کے نتائج نے حکومت کی خفت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

نصرت جاوید کے بقول عمران خان ”وکھری نوعیت“ کی سیاست کررہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں لوٹنے کو وہ ہرگز آمادہ نہیں۔ اس کے باوجود جن آٹھ نشستوں پر الیکشن ہوئے ان میں سے سات پر موصوف خود امیدوار تھے۔ غالباًان تمام نشستوں کو جیت کر وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ عوام کی اکثریت ان کی چلائی ہر سیاسی چال کو بغیر کوئی سوال کئے سراہتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج انہیں وطن عزیز کا مقبول ترین سیاستدان ثابت کرنے کے علاوہ اپنے اس مطالبے کو بھی تقویت پہنچائیں گے کہ موجودہ حالات فوری انتخابات کے متقاضی ہیں جو عمران خان کی اقتدار میں جلد از جلد واپسی کو یقینی بنائیں۔

عاشقان عمران خان نے اپنے قائد کے فیصلے کو یہ سوچتے ہوئے سراہا ہو گا کہ اس کے ذریعے ”امپورٹڈ حکومت“ کے خلاف ”ریفرنڈم“ کا ماحول بن جائے گا اور عمران کی 8 حلقوں سے جیت حکومت کو ”اصولی اور اخلاقی“ بنیادوں پر مستعفی ہونے کو مجبور کر دے گی۔ لیکن ایسا ہو نہیں پایا اور نہ ہی ”ریفرنڈم“ کا ماحول بن پایا کیونکہ عمران خان ملتان اور کراچی سے اپنی ہی جماعت کی خالی کردہ دو نشستیں ہار گئے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی قیادت یہ کہنے میں بجا ہے کہ اس نے نہ صرف کراچی میں تحریک انصاف کے چیئرمین کو شکست دی بلکہ ملتان میں پارٹی کے وائس چیئرمین کو بھی پچھاڑ دیا۔

نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ جن سات نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوئے ہیں ان میں سے فقط ملیر کو چھوڑ کر باقی تمام حلقوں میں اوسطاً50 ہزار نئے ووٹوں کا اندراج ہوا ہے۔ ہم بآسانی فرض کرسکتے ہیں کہ نئے ووٹروں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہو گی۔ فرض کیا اس کا 50 فی صد حصہ بھی دل وجان سے عمران خان کا متوالا بن چکا ہے تو اتوار کے دن جن حلقوں پر انتخاب ہوئے وہاں پولنگ بوتھوں کے باہر ایسے نوجوانوں کی لمبی قطاریں نظر آنا چاہئیں تھی۔ اتوار کے دن اپنے فون کو مسلسل استعمال کرتے ہوئے میں اس تاثر کی تصدیق میں مصروف رہا۔ جو منظر متوقع تھا وہ مگر برسرزمین برپا ہونے کی کماحقہ تصدیق نہیں ہوئی۔ یہ حقیقت مجھے سوال اٹھانے کو اکساتی رہی کہ عمران کے متوالے شمار ہوتے نوجوان اگر بھاری بھر کم تعداد میں انہیں ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشنوں تک نہیں آئے تو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا مقابلہ کرنے تحریک انصاف کے متوقع لانگ مارچ میں کیوں شریک ہوں گے۔ اکثر نشستیں جیت کر بھی عمران میری دانست میں ”ریفرنڈم“ کا ماحول نہیں بنا پائے۔ لہذا ضمنی انتخابات کے نتائج کو ”ریفرنڈم“ یا T-20 جیسے میچ کی صورت نہ لیا جائے۔ ان نتائج کے بعد فی الوقت اس سوال پر کامل توجہ دینا ہو گی کہ فوری انتخاب کے حصول کے لئے عمران خان کو اب کونسی نئی چال کھیلنا ہو گی؟ لانگ مارچ یا صدر عارف علوی کی معاونت کی بدولت ان ”نیوٹرلز“ سے ”متحرک“ کردار کی توقع جنہیں وہ صبح و شام گالیاں دیتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button