شہباز شریف کو نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے پر گرفتار کیا گیا


مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے شہباز شریف کی گرفتاری کو افسوس ناک دن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف کو گرفتار کرنے کی صرف ایک وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
لاہور میں پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے دور میں سقوط کشمیر ہوا، پہلی مرتبہ اتنی مہنگائی اور اپوزیشن پر اس طرح کریک ڈاؤن ہوا اور پہلی مرتبہ ہر گناہ کے بعد یہ لوگ احتساب سے بالاتر ہیں جبکہ پہلی مرتبہ ہی قائد حزب اختلاف کو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے اس پر کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف کو کسی قسم کے احتساب یا الزام پر گرفتار کیا گیا کیونکہ ان پر ریفرنس چل رہا تھا، شہباز شریف کو عدالتوں کے چکر لگوا کر انہوں نے گرفتار کرنا تھا کیونکہ فیصلے پہلے لکھ کر لائے ہوتے ہیں۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں، قوم ، میڈیا اور اس طرح کے فیصلے دینے والوں سمیت مسلم لیگ (ن) بھی اچھے سے جانتی ہے کہ شہباز شریف کے خاندان کو جس طرح ظلم کا نشانہ بنایا گیا اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ سر توڑ کوششوں کے باوجود شہباز شریف نے اپنے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑا،یہی نہیں بلکہ انہوں نے وفاداری کی، ان کی بیوی اور بیٹوں کو اشتہاری بنا دیا گیا، حمزہ شہباز کو 13 ماہ ہوگئے ہیں اور وہ جیل میں ہیں لیکن ان سارے ظلم و اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود شہباز شریف اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے رہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے میں شہباز شریف نے بیانات دیے کہ آپ نے مجھے گرفتار کرنا ہے کریں، نواز شریف نے جو تقریر کی ہے اور جو اے پی سی نے اعلامیہ دیا ہے اس پر 100 فیصد عمل ہوگا، شہباز شریف نے کہا تھا کہ نواز شریف نے جو تقریر کی میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں تو یہ بات تو واضح ہے کہ انہیں کسی الزام پر نہیں گرفتار کیا گیا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں کوئی قانون و انصاف ہے تو پھر گرفتاری ‘شہباز شریف کی نہیں عاصم سلیم باجوہ کی ہونی چاہیے تھی کیونکہ شہباز شریف کے نام 99 کمپنیاں، سیکڑوں فرنچائز نہیں نکلے، شہباز شریف کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا، ان کے والد ایک معروف کاروباری شخصیت تھے جبکہ عاصم باجوہ ایک تنخواہ دار ملازم تھے، ان کا لکھ پتی یا کروڑ پتی نہیں بلکہ ارب پتی ہوجانا قابل احتساب الزام ہے’۔انہوں نے کہا کہ نیب تو کہتا تھا کہ ہم فیس نہیں کیس دیکھتے ہیں، سپریم کورٹ، لاہور ہائیکورٹ و معزز ججز نے نیب کی ساکھ کو مکمل طور پر عیاں کیا ہے کہ نیب ایک سیاسی انجینئرنگ کرنے والا ادارہ ہے تو اس کے بعد تو کوئی شک کی گنجائش نہیں بنتی۔
لیگی نائب صدر کا کہنا تھا کہ نیب کو نہ بی آر ٹی، اس کی بسوں میں لگنے والی آگ، بلین ٹری سونامی تو نظر نہیں آتی، نہ ہی انہیں عمران خان کے گھر کا اچانک ریگولرائز ہونا نظر آتا اور نہ ہی انہیں بڑے وزرا کی کرپشن نظر آتی جبکہ نہ ہی نیب کو یہ نظر آتا کہ جہانگیر ترین کو راتوں رات بیرون ملک اسمگل کرا دیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب عاصم سلیم باجوہ، ان کی اہلیہ جو ایک گھریلو خاتون تھی ان کے اثاثے، سرمایہ کاری سامنے آئے تو کیا نیب کو اور عمران خان کو کیس نظر نہیں آیا، ان کے بچے 25، 30 سال کے ان پر انحصار نہیں کرتے تو شہباز شریف کے بچے جو 40 سال کی عمر کے ہیں تو کیا وہ اپنے کاروبار الگ نہیں کرسکتے؟، ان کے ذاتی کاروبار کو والد سے جوڑ دیا جاتا ہے لیکن عاصم باجوہ کے کاروبار، ان کی اہلیہ کے اثاثے، ان کے بچوں کے اثاثے کسی کو نظر نہیں آتے۔انہوں نے کہا کہ پھر ہم یہ سوال پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ یہ کس قسم کا انصاف ہے، میڈیا پر دباؤ ڈالا گیا کہ عاصم سلیم باجوہ کی خبر آپ نے نہیں اٹھانی، پھر جب ان کا وضاحتی بیان آیا تو کہا گیا کہ اس کو چلاؤ جبکہ ہمیں خبر کا معلوم ہی نہیں تھا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اداروں کے خلاف ہے یا ان کے خلاف بات کرتی ہے، چاہے عدلیہ ہو یا کوئی ادارہ ہو، جب آپ ججز کو بلیک میل کرتے اور عدلیہ کو دباؤ میں ڈالتے تو اس سے متازع کوئی چیز عدالتوں اور اداروں کو نہیں بناسکتی۔دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف تو کچھ ثابت نہیں ہوا لیکن جن کے خلاف ثبوت سامنے آگئے تو وہ کسی کو نظر نہیں آرہے، کبھی شہباز شریف کو گرفتار کرلیا جاتا تو کبھی مولانا فضل الرحمٰن کو نوٹس بھیج دیا جاتا لیکن ‘ہے کسی میں ہمت کہ وہ عاصم سلیم باجوہ کو نوٹس بھیجے’۔ان کا کہنا تھا کہ (ش) میں سے (ن) نکالنے والے یا (ن) میں سے (ش) یا (م) نکالنے والوں کی اپنی چیخیں نکل گئی ہیں کیونکہ (ن) میں سے (ش) نہیں نکلی اور (ش) میں سے (ن) نہیں نکلے گی۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو رشتوں کا نہیں معلوم اور جنہوں نے صرف رشتوں کو استعمال کیا ہے انہیں نہیں معلوم کہ بھائیوں کے درمیان بھائی چارہ اور محبت، عزم کسے کہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی ایک ذاتی سوچ ہے جو 30، 40 سال سے ہے جس میں وہ سمجھتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست بہتر ہے اور وہ یہ بات نواز شریف، پارٹی اور ہمارے درمیان بھی کرتے ہیں لیکن جب نواز شریف کا فیصلہ آجاتا ہے تو اس کے آگے شہباز شریف سب سے پہلے انسان ہوتے جو سرتسلم خم کرتے ہیں، شہباز شریف ہمارے صدر ہیں اور رہیں گے لیکن وہ بھی نواز شریف کو اپنا قائد مانتے ہیں اور انہیں کے حکم پر لبیک کہتے ہیں جس کی انہیں یہ سزا ملی۔
اپنی گفتگو میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘عمران خان کو یہ خوف ہے کہ شہباز شریف ان کے متبادل ہیں اور اگر انہوں نے شہباز شریف کو جگہ دی تو وہ ان کے متبادل کے طور پر ان کی جگہ لے لیں گے، یہ خوف تو اپنی جگہ اسے ہے جو کمزور وکٹ پر کھیل رہا ہو، جسے لایا گیا ہو، جو مسلط شدہ ہو، جس کی اتنی حیثیت نہ ہو کہ گلگت بلتستان کا اجلاس جی ایچ کیو میں چل رہا ہو اور وہ دوسرے کمرے میں چھپ کر بیٹھا ہو، جو اتنا بزدل ہے کہ حمزہ شہباز کو 13 ماہ سے اس لیے جیل میں رکھا ہوا ہے کہ وہ پنجاب میں قائد حزب اختلاف ہے اور وہ کوئی تحریک چلا سکتا ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے عوام کی نظر میں شہباز شریف متبادل نہیں بلکہ صرف وہی چوائس ہیں، عمران خان کو جب تک مہلت ملی ہوئی ہے وہ اسے اپنی چالاکی نہ سمجھیں جبکہ ادارے جو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے کہ ایک ایسے شخص کو قوم پر مسلط کردیا ہے جو نا تو تجربہ کار ہے اور اس نے ملک کو آج اس دوہراہے پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے نہیں خیال کہ عمران خان سے زیادہ کسی نے اداروں کو بدنام کیا ہے بلکہ اپنے سیاسی کھیل کے لیے استعمال کیا ہے، لہٰذا اب یہ سوچنا پڑے گا کہ مسلم لیگ (ن) صرف شہباز شریف نہیں بلکہ وہ 22 کروڑ عوام کی ترجمانی کرتی ہے۔
مریم نواز کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے کارکنان اور عوام اس سب پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اگر عمران خان کو اسی طرح سپورٹ کیا جاتا رہا اور ملک کو اسی طرح اندھیروں رکھا جاتا رہا تو یہ بات مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے بھی باہر چلی جائے گی۔اے پی سی کے ایجنڈے پر عملدرآمد سے متعلق انہوں نے کہا کہ چاہے شہباز شریف، مریم نواز یا مسلم لیگ (ن) کے شیروں کو گرفتار کریں یہ تحریک رکنے والی نہیں، یہ تحریک پورے جذبے کے ساتھ چلے گی، آپ نہ انتخابات کراسکتے ہیں نہ کرائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو ہم میدان میں کھڑے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح آپ گلگت بلتستان میں انتخابات کو انجینئر کیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو توڑنا شروع کیا ہے، وہاں مسلم لیگ (ن) ہی تھی جبھی آپ کو انتخابات کو ملتوی کرنا پڑا، ہم وہاں ہارے یا جیتے لیکن اتنی آسانی سے میدان خالی نہیں چھوڑیں گے، اگر آپ کو انجینئرنگ کرنی ہے تو عوام کے سامنے کرنا پڑے گی، آپ یہ چھپ کر نہیں کرسکتے اور آپ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
قبل ازیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا مقصد مسلم لیگ (ن) کو گلگت بلتستان میں انتخابات میں کامیابی سے روکنا ہے۔لاہور میں پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کا ہر ووٹر چپے چپے پر اس کا مقابلہ کرے گا۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی گرفتاری ہماری قوم کے لیے المیہ ہے کہ جس شخص نے پنجاب میں محنت کی اور وہاں کے عوام کی خدمت کی لیکن اس لیڈر کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے وہ ہماری تاریخ پر دھبہ اور ظلم ہے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) بھی اس پر احتجاج کرے گی تاہم ہم حکمرانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس جنگ کو لڑیں گے اور جیتیں گے۔
پریس کانفرنس کے آخر میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے بیانیے سے متعل ایک سوال پر مریم نواز نے کہا کہ ‘مسلم لیگ (ن) میں مختلف سوچ کے لوگ ہیں، میاں صاحب اورمیرے بیانیے کا بوجھ اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے لیکن ایک بات میں پورے ایمان سے کہہ سکتی ہوں کہ مسلم لیگ (ن) وہ لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں اور جو یہاں نہیں ہیں وہ سب مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے بیانیے پر دل سے لبیک کہتے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘اس کا ثبوت یہ کہ رانا ثنااللہ کو انہوں نے منشیات جیسے بھونڈے کیس میں گرفتار کیا، احسن اقبال محض الزام پر جیل کاٹ کر آئے لیکن یہ مسلم لیگ (ن) کو توڑ نہیں سکے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر یہ مسلم لیگ کو انتہائی دباؤ، یک طرفہ احتساب کے باوجود نواز شریف کو اپنا لیڈر اور امام مانتے ہیں’۔
شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پارٹی کی قیادت سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف سے میرا رابطہ دن میں 10 بار ہوتا ہے اور قیادت نواز شریف خود کریں گے، جب نواز شریف کے خلاف اسلام آباد میں آؤٹ آف دی وے اپیل لگی تو میں اسی سمجھ گئی تھی کہ آگے جو تحریک چلنے والی ہے اس سے خوف کھارہے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ان کا منصوبہ تھا کہ نواز شریف کو ہائی مورال گراؤنڈ پر واپس لا کر جیل میں بند کریں، اس کو میں پہلی دن ہی سمجھ گئی تھی اور اشتہاری قرار دینے کا سارا عمل اسی کا حصہ ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘مسلم لیگ (ن) کی قیادت نواز شریف خود کریں اور جس کو ذمہ داری دیں گے، پارٹی ان کی آواز پر لبیک کہتی ہے اور ان کی جو ہدایات ہوتی ہیں ان کے مطابق چلتی ہے، یہ ہدایات کسی کے حق یا خلاف نہیں بلکہ شفاف ہوتی ہیں’۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘یہ نہ سمجھیں کہ شہباز شریف کو بند کرنے سے تحریک رک جائے گی بلکہ اس تحریک میں اور جذبہ آئے گا، مسلم لیگ (ن) کے تمام کارکن نواز شریف بھی ہیں اور شہباز شریف بھی ہیں، وہ ہراول دستہ بنیں گے’۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ ‘ہمارے وقت میں ایک اشتہاری عمران خان سپریم کورٹ میں جا کر پاناما پر درخواست دے رہا تھا اور حاضر ہورہا تھا اس وقت عدالت نے نہیں بلایا، اس وقت سوموٹو بھی آرہا تھا اور فون کرکے کہا جارہا تھا بھائی ادھر ادھر نہ جاؤ، لاک ڈاؤن نہ کرو ہمارے پاس آجاؤ، اس پر سب سے پہلے عدلیہ کو خود نوٹس لینا چاہیے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘کل اسلام آباد ہائی کورٹ نے بہادری دکھائی ہے کہ ایس ای سی پی سے ڈیٹا غائب کیسے ہوا وہ تو پبلک پراپرٹی ہے، عدالت میں ججوں کو انصاف پر چلنا بہت مشکل ہے، اگر وہ دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو ان کے کیریئر پر دھبہ لگتا ہے، جو حضرات جا چکے ہیں انہیں آج عوام کس نام سے یاد کرتے ہیں اور وہ عوام کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہیں’۔
مریم نواز نے کہا کہ ‘اگر ججوں کو ڈرا دھمکا کر ان کو بلیک میل کریں گے تو ان کے کیریئر پر دھبہ لگتا ہے اور اگر وہ آپ کی باتیں نہیں مانیں گے تو پرپھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز والا حال ہوتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘ججوں کے لیے بھی ہم بولیں گے کیونکہ ججوں کا ایک رتبہ ہوتا ہے اور وہ کوڈ آف کنڈکٹ کے باعث سامنے آکر بات نہیں کرسکتے، سیاست دانوں کی طرح لڑائی نہیں کرسکتے اور اپنا مقدمہ نہیں لڑسکتے لیکن اس کی ذمہ داری بھی ہم پر آتی ہے’۔
میڈیا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہم آپ سب کے لیے بھی لڑیں گے جب آپ کی آواز بند کی جائے گی، بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف بھی کیا اور بہت سارے لوگوں کے خلاف مقدمے بھی بنے اور پاناما کیس کا پرچار کرنے والے تھے ان کے لیے بھی آواز اٹھائی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میڈیا کو بھی تعاون کی ضرورت ہے اور ان سب کے لیے آواز اٹھاؤں گی، میڈیا اگر کبھی غلط یا خلاف بات کربھی جائے پھر بھی پاکستان کو واضح سمت دینے کے لیے میڈیا ایک مضبوط ستون ہے’۔مریم نواز نے کہا کہ ‘اگر عدالت عاصم سلیم باجوہ کا کیس نہیں اٹھاتی اور ازخود نوٹس نہیں لیتی پھر ہم اس کو پی ڈی ایم، رہبر کمیٹی اور اے پی سی میں لے کر جائیں گے جہاں کوئی مشترکہ فیصلہ کریں گے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بات اب جائے گی نہیں بلکہ جواب دینا پڑے گا، شہباز شریف پر کچھ ثابت نہ ہوا، اس کو پکڑ لیتے ہو، رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے کچھ برآمد نہیں ہوا لیکن ہیروئن رکھنے مقدمہ بنالیتے ہو تو جس کی 99 کمپنیاں نکل آئی ہیں اور جس کی سیکڑوں فرنچائز نکل آئی ہیں، جس کی بیوی اور بچوں پر الزامات ثابت شدہ ہیں تو وہ کھلے عام کیوں پھر رہا ہے، اس سے کوئی عدالت پوچھنے کی جرات کیوں نہیں کرتی، یہ سوال تو اٹھے گا’۔
میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کو ایکسپوز کرنے کا پوائنٹ یہ تھا کہ ان لوگوں میں اتنی ہمت اور جرات نہیں تھی کہ وہ منہ کھول کر آتے بلکہ چہرے ڈھانک کر آئے تھے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے پڑھا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس سے اظہار لاتعلقی کیا ہے تو نامعلوم افراد، نامعلوم افراد ہوتے ہیں اور ان کو پیغام دینا چاہتی ہوں کہ جو نواز شریف جیلوں سے نہیں ڈرا، جو نواز شریف اپنی بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل برداشت کرنے اور اس کی بیٹی دو مرتبہ جیل گئی اس کو برداشت کیا، ہر ظلم برداشت کیا اورپیچھے نہیں ہٹا تو اب پہلے سے زیادہ مضبوط اور بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنا چاہتا ہے، ایسے آدمی کو ڈرانا یا ایسا سوچنا بھی دنیا کی بڑی غلطی ہے’۔مریم نواز نے کہا کہ ‘مجھے عدلیہ سے پوری امید ہے کیونکہ عدلیہ نے پہلے بھی دباؤ میں آکر کوئی فیصلہ دیا ہے تو اس کو میں سمجھتی ہوں کہ جس طرح میڈیا اور سیاست دانوں پر دباؤ ہے اسی طرح ججوں پر بھی دباؤ ہے لیکن اب دباؤ ڈالنے والے کمزور ہوتے نظر آرہے ہیں کیونکہ سدا طاقت صرف اللہ کی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے قوی امیدہے کہ آئین اورقانون پر چلنے والے جج ضرور انصاف دیں گے، انصاف پر مبنی فیصلے دیں گے اور اپنے فیصلوں کے ذریعے عدلیہ اور عدل کو بھی آزاد کریں گے کیونکہ یہ صرف سیاست دانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ عدلیہ کا بھی معاملہ ہے، اس پر جو دھبے عدلیہ پر لگے ہیں وہ اب انہیں دھونے پڑیں گے’۔انہوں نے کہا کہ ‘مشیروں کے طور پر جو ذاتی ملازم ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کی باتیں کرتے ہیں، جس نے بھی مسلم لیگ (ن) کو توڑنے کا خواب دیکھا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن گیا اور وہ تڑپتے رہیں گے لیکن ان کی حسرت پوری نہیں ہوگی’۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف بہت جلد واپس آئیں گے کیونکہ ان کو وطن سے دور رہنا بہت مشکل ہے، اور جب تک ان کے دل کے ڈاکٹر اور سرجن اجازت نہیں دیتے وہیں رہیں گے کیونکہ ان کے دل کی ایک سرجری ہونی ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘مسلم لیگ (ن)، میں اور ان کے دیگر بچوں کے علاوہ عوام نہیں چاہتے کہ وہ علاج کے بغیر واپس آئیں، علاج کرائیں اور جیسے کووڈ-19 کھلے گا علاج کرائیں گے لیکن ان کی ہمت جوان اور وہ قیادت کریں گے، جو لوگ سمجھتے تھے نواز شریف کو سیاست سے بےدخل کیا وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے’۔ایک سوال پر نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ‘ڈی جی آئی ایس پی آر کو ایک ذاتی ملاقات پر بات نہیں کرنی چاہیے تھی، ڈی جی آئی ایس پی سنجیدہ معاملات کے لیے ہیں، انہیں قومی مفادات اور سنجیدہ باتوں پر کرنی چاہیے تھی اور ان کے کرنے کی بات نہیں تھی اورانہوں نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز پر بات ہوئی تھی اگر طویل ملاقات ہوتو پارٹی پر بات ہوگی لیکن انہیں بڑے معاملات پر بات کرنی چاہیے’۔طلال چوہدری سے متعلق سوال پر مریم نواز نے کہا کہ ‘طلال چوہدری کا معاملہ خالصتاً ایک ذاتی معاملہ ہے اس لیے میں نے ان سے نہیں پوچھا اور نہ ہی انہوں نے بتایا، جب ایک فریق اپنی ذاتی زندگی کو عام نہیں کرنا چاہتا تو ہم سب اس کو نہ اچھالیں تو بہتر ہے، سیاسی باتوں کو سیاست تک محدود کیا جائے’۔انہوں نے کہا کہ ‘مجھے ابھی معلوم نہیں ہے کہ کیا بات ہوئی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس نہ صرف استعفے بلکہ ایک فیصلہ کن لانگ مارچ کا بھی آپشن ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ 10 سوالوں کو مذاق سمجھتی ہوں، کرنے والا بھی مذاق ہے، میں اس قسم کی لغو باتوں کا جواب دینا نہیں چاہتی۔انہوں نے کہا کہ ‘نواز شریف کے ساتھ جو ہوا ہے اس پر پروگرام میں انکشاف کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ پاناما کرکے اقامہ نکالا گیا، جج ارشد ملک کو بلیک میل کر کے سزا دی گئی تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ نوازشریف کے ساتھ زیادتی ہوئی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘انکشاف ہو یا نہ ہو لیکن نواز شریف کے ساتھ ظلم ہوا، نواز شریف کی آڑ میں ملک، عدلیہ اور ہر جمہوریت پسند انسان پر ظلم ہوا ہے’۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں انکشاف پر انہوں نےمزید کہا کہ ‘اس کے باوجود یہ حیران کن انکشاف ہے اس پر تحقیقات ہونی چاہیے بلکہ اپنی پارٹی سے درخواست کروں گی کہ اس کو آخری حد تک لے جانا چاہیے، اس کی تفتیش ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے لانا چاہیے’۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button