تحریک انصاف برضا و رغبت دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر آ چکی؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ الله خان نیازی نے کہا ہے کہ عثمان بزدار کی طرح بیرسٹر گوہر علی خان نووارد ضرور ہیں مگر وہ ، اچانک آئے اور چھا گئے ۔باقی اکثر عہدیدار بھی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہی ہیں ، عمران خان کے اردگرد موجود درجن بھر وکلابھی اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بکس میں ہیں۔ پی ٹی آئی برضا و رغبت اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثرآ چکی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کیلئے آسودگی کا باعث ہے’’پروجیکٹ نئی تحریک انصاف‘‘کو کے پی اور سند ھ میں کھل کر سیاست کرنے کی اجازت مل چکی ہے ۔ کے پی میں تحریک انصاف کے ورکرز دل کی خوب بھڑاس نکال رہے ہیں .اگر الیکشن ہو گئے تو پی ٹی آئی کو کئی درجن سیٹیں بھی ملیں گی. اپنے ایک کالم میں حفیظ الله خان نیازی کہتے ہیں کہ گوہر علی خان ، علی امین گنڈا پور ، حلیم عادل شیخ جیسے سلیقہ شعار ، معاملہ فہم اور مفاہمت بسند لوگ ہی تو اسٹیبلشمنٹ کے گوشہ عافیت کے متعلقین ہیں ۔ ایسے ہی جیسے 12 اپریل 2022ءکو مسلم لیگ ن اور شہباز شریف کی قیادت میاں نواز شریف کی مرضی کے عین مطابق جنرل باجوہ کی کفالت میں منتقل ہو گئی تھی ۔ آج وطن عزیز کے مستقبل کیساتھ سوال ایک ہی نتھیہے کہ ،’’ 8 فروری کو الیکشن ہو پائینگے یا نہیں‘‘ ؟ ۔ یادش بخیر، چند ماہ پہلے اچانک خبر آئی کہ نواز شریف فریضہ حج کیلئے جون کے آخری ہفتے میں سعودی عرب پہنچ رہے ہیں ۔ چند دن بعد نوازشریف جدہ کی بجائے دبئی پہنچ گئے جبکہ اسی دن آصف زرداری بلاول کے ہمراہ دبئی پہنچ چکے تھے۔ وہاں پر نواز/ زرداری کی اہم میٹنگ بارے جب بریکنگ نیوز آئی تو ساتھ ہی میڈیا کے کان کھڑے ، پلکیں بلند ہو گئیں ۔ تب ہی ہم نے کہا تھا کہ استحکام پاکستان پارٹی کی ایک دم تشکیل سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ،علاوہ ازیں دونوں قائدین یا تو اپنی مجودہ حکومت کی توسیع چاہتے ہیں یا الیکشن ملتوی ہوتے ہیں تو نگران سیٹ اپ اپنی مرضی کا چاہتے ہیں‘‘۔ حفیظ الله نیازی کا کہنا ہے کہ جب بلوچستان سے محمد مالک اور اسحاق ڈار کا نام بطور وزیراعظم سامنے آیا تو شک نہ تھا کہ یہ سب نواز زرداری گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے ۔ اگست کے پہلے ہفتے میں مشترکہ مفادات کونسل (CCI ) کی اچانک بیٹھک ہوئی ، یک نکاتی ایجنڈا،’’مردم شماری کے نتائج شائع کرنا تھے‘‘ ۔ مردم شماری رزلٹ شائع ہونے پر نئی حلقہ بندیاں ایک آئینی ضرورت تھیں لہذا ، الیکشن ملتوی ہونا دیوار پر کندہ تھا. سانحہ 9 مئی کے بعد کہا گیا کہ ’’ الیکشن ہوۓ اور اگر تحریک انصاف الیکشن میں موجود ہوئی تو پھر وہ عمران خان کے زیر اثر نہیں ہو گی اور عام انتخابات میں سیٹوں کی بندر بانٹ یقینی رہے گی یہ بات بھی طے سمجھیں ، اگلے وزیراعظم نواز شریف ہونگے‘‘ ۔ جب وجود میں اسٹیبلشمنٹ نے نگران حکومتیں بنفس نفیس اپنی سہولیات اور خواہشات کےمطابق تشکیل دیں ۔یعنی کہ دونوں قائدین کے مطالبات ثمر آور نہ ہوئے ۔اسٹیبلشمنٹ کوئی مطالبہ کسی خاطر میں نہ لائی تاکہ آنیوالے دنوں کی سیاسی حکمت عملی عین اپنے مطابق رکھ سکے۔ آج بھی خدشہ ہے کہ ،’’فروری مارچ میں بھی الیکشن نہیں ہو سکیں گے‘‘. وجہ صاف ظاہر ہے ، سانحہ 9 مئی کے بعد’’اصلی تے نسلی‘‘ تحریک انصاف عملاً معذور ہو چکی تھی ۔ساری قیادت یا جیل میں تھی ، معافی تلافی کر رہی تھی یا زیر زمین تھی ۔ سیاسی حالات اسٹیبلشمنٹ کے حق میں اور عام انتخابات کرانے کے موافق تھے ۔ مرضی کے نتائج بھی ممکن تھے ۔کوئی وجہ تو ہوگی کہ مردم شماری کے نتائج شائع کر کے الیکشن ملتوی کروانا پڑے. حفیظ الله خان نیازی کہتے ہیں کہ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے 8فروری کی تاریخ دے دی ہے اور سپریم کورٹ نے اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ،سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن 8 فروری تک ملتوی کرنے کی’’وجہ‘‘ختم ہو چکی ؟ اسٹیبلشمنٹ یقیناً آج سیاہ و سپید کی مالک ہے اور خلوص نیت سے الیکشن کروانا چاہتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں خصوصاً پیپلز پارٹی بھی شدومد سے الیکشن کی متمنی ہے ۔ تحریک انصاف اپنی مقبولیت کے زعم میں الیکشن کے لئے تڑپ رہی ہے ، مگر بد قسمتی! الیکشن شاید نہ ہو پائیں۔ اگر ساری سہولت کے باوجود،’’ 8نومبرتک الیکشن نہ کروائے گئے تو اسکی کوئی وجہ نزاع تو تھی؟کیا آج وہ’’وجہ نزاع‘‘دور ہو چکی ہے؟ وہ’’ وجہ نزاع‘‘ نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کی شدت پہلے سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان 70 سال سے جو خون ریز جنگ جاری ہے ، اسکی وجہ تو اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ، ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کرنیوالی تمام سیاسی جماعتیں ا اسٹیبلشمنٹ کیلئےنیک خواہشات و جذبات رکھتی ہیں یہ انکے اورمملکت کیلئے نیک شگون ہے ۔ معیشت میں حرکت حوصلہ افزا اور خوش آئند ضرور ہے مگر اسکی برکت اسٹیبلشمنٹ ہی سمیٹے گی ۔ ۔ عمران خان کی موجودگی رنگ میں کیا بھنگ ڈالے گی؟خاطر جمع رکھیں ، جب تک عمران خان کے مقدمات عدالتوں میں ہیں ، انتخابی مہم بگاڑ کی زد میں ہی رہنی ہے ۔ الیکشن کے انعقاد سے پہلے الیکشن والا ماحول ہی نہیں بن پائے گا۔    @~Shahnawz Rana

Related Articles

Back to top button