کیا بیک سیٹ ڈرائیونگ کرنے والے اب بیک فٹ پر جائیں گے؟


کراچی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری میں اداروں کے کردار پر اپوزیشن کی تنقید کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری کروانے کے اعلان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے مقتدر ادارے اب بڑھتا ہوا دباؤ لیکر بیک فٹ پر جا رہے ہیں۔ سیاست اور حکومتی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک صوبے کے آئی جی کو اداروں کے ایما پر اغوا کر لیا گیا اور پھر بے بس ہو کر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو اس معاملے کی انکوائری کروانے کے لیے آرمی چیف سے مطالبہ کرنا پڑا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی اداروں کی مدد سے گرفتاری اور اسکے بعد کے ڈرامائی واقعات کے باعث حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی تناؤ اور محاذ آرائی شدت اختیار کر گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی غیر یقینی بڑھتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے امکانات بڑھ گے ہیں۔ سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ پہلی اسٹیج پر آرمی چیف سے کراچی واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کر کے بلاول بھٹو نے اپوزیشن جماعتوں کے اس موقف کی ہی نفی کر دی کہ فوج کو سیاسی اور حکومتی معاملات سے دور رہنا چاہیے۔ ناقدین کا یہ موقف تھا کہ بلاول کو آرمی چیف کی بجائے وزیراعظم عمران خان سے انکوائری کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا لیکن بلاول کا یہ موقف ہے کہ جو شخص منہ پر ہاتھ پھیر پھیر کر اپوزیشن سے انتقام لینے کی دھمکی دے رہا ہے اس سے وہ انصاف کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟
دوسری طرف کچھ مبصرین کا یہ خیال ہے کہ بلاول کے مطالبے اور آرمی چیف کی طرف سے فوری طور پر انکوائری کروانے کے اعلان سے اسٹیبلشمنٹ اور حزب اختلاف کے درمیان جمی ہوئی برف پگھلنے اور ان کے باہمی تعلقات بہتر ہونے کا امکان ہے۔ اس سے پہلے اپوزیشن کے جلسوں کے دوران فوجی قیادت پر ہونے والی سخت تنقید کے بعد سے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کشیدگی کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے اور سیاسی حلقوں میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ بات اگر مزید بگڑی تو ہو سکتا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج نافذ کر دے۔ بلاول بھٹو نے 20 اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں اسی پیرائے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کسی کو سندھ میں گورنر راج لگانے کا شوق ہے تو ہمت کر کے دیکھ لے۔
تاہم اس مکان کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ آرمی چیف کی جانب سے کراچی واقعے کی انکوائری کے فیصلے سے شاید وزیراعظم خوش نہ ہوں کیونکہ اس سے ان کے اتھارٹی پر زد پڑتی ہے لیکن عسکری حلقوں کا کہنا ہے کیونکہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے واقعہ میں الزام اداروں پر آیا تھا اس لئے اس کی ادارہ جاتی انکوائری ضروری ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کے سربراہ ہیں۔کچھ مبصرین کا تو یہ بھی خیال ہے کہ کراچی میں سندھ حکومت اور صوبائی پولیس کی اتھارٹی کو بلڈوز کرتے ہوئے کیپٹن محمد صفدر کو گرفتار کرنے کے واقعے سے وزیراعظم کا بھی تعلق ہو سکتا ہے کیوںکہ اس واقعے میں جس ادارے کا نام لیا جا رہا ہے اس کے سربراہ کے عمران خان سے ذاتی تعلقات ہیں۔
دوسری طرف عمران خان کی جانب سے اپوزیشن کے خلاف شکنجہ مزید تنگ کرنے کے اعلان کے بعد سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف انتقامی مقدمات درج کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا سلسلہ آگے بڑھایا گیا تو ملکی حالات خرابی کی طرف جا سکتے ہیں کیونکہ ابوزیشن پہلے ہی سڑکوں پر ہے اور اپنی احتجاجی تحریک چلا رہی ہے۔
پی ڈی ایم کے بینر تلے منعقدہ جلسوں میں اپوزیشن کی جانب سے فوج کے سیاسی کردار کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن رہنما نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھاتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں. اس دوران اب وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے کھیل سے پورا نظام ہی لپیٹا جا سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ موجودہ کشیدہ سیاسی صورتِ حال میں تجزیہ کاروں نے سیاسی جماعتوں کو لچک دکھانے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ مفاہمت کے لیے ایسی شخصیات آگے بڑھیں جن کے ذریعے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکے۔
حالانکہ حکومت اور اپوزیشن کی چپقلش میں پاکستان کی فوج مرکزِ نگاہ بنی ہوئی ہے اور دونوں جانب سے کئی مواقع پر فوج کا ذکر کھل کر سامنے آیا ہے، لیکن تاحال فوج نے اس تنازع پر براہِ راست کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ موجودہ سیاسی صورتِ حال پر کہتے ہیں کہ حالات تصادم اور کشمکش کی طرف بڑھ رہے ہیں کیوں کہ اس وقت دونوں اطراف سے جارحانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ سہیل وڑائچ کے بقول مسلم لیگ (ن) عمران خان کے بجائے انکو لانے اور چلانے والے ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اپوزیشن کا اس وقت ہدف یہ ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے ایک صحفے پر نہ رہیں اور یہ اتحاد ٹوٹ جائے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ "میں حالات درست سمت میں جاتا نہیں دیکھ رہا۔ لیکن اس کے باوجود پُر امید ہوں کہ بعض سمجھدار سیاستدان سامنے آئیں گے جو ان حالات میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ ریاستی ادارے بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں اپوزیشن کے جلسوں سے کچھ نہیں ہو رہا لیکن ان جلسوں کو روکنے اور غیر ضروری گرفتاریاں کرنے سے سیاسی درجۂ حرارت اور نفرت میں اضافہ ہو گا۔ اُن کے بقول ابھی بہت بڑے جلسے نہیں ہوئے، اگر زیادہ بڑے جلسے ہوئے یا مزید گرفتاریاں ہوئیں تو پھر حالات زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔سہیل وڑائچ کی رائے ہے کہ کسی بھی جماعت کو جلسوں کی اجازت ہونی چاہیے۔
اسی طرح تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کو ڈیکورم میں رکھنے کے لیے تلخی کا خاتمہ ضروری ہے لیکن اس وقت دونوں طرف بہت محدود سوچ کارفرما ہے۔ حسن عسکری کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ عوامی مسائل کے حل کی بجائے اسکی تمام تر توجہ احتساب پر رہے جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے عوام کے مسائل پر کوئی کام نہیں کر رہا۔ انکا کہنا ہے کہ حکومت چھوٹے مسائل میں الجھ کر عوام کے مسائل بھول چکی ہے اور اسی بنا پر تیزی سے غیر مقبول ہو رہی ہے۔
دوسری طرف سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کراچی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے واقعے میں رینجرز اور عسکری اداروں کے ملوث ہونے کے الزام نے ایک بار پھر سندھ اور وفاق کے مابین کشیدگی بڑھا دی ہے۔۔اس بارے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کو اگر فسطائی نہ کہا جائے تو یہ کم از کم غیر جمہوری عمل ضرور ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان کہتی ہیں کہ جمہوری دور میں ہر دیوار پھلانگی جا رہی ہے، ہر لائن کراس کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول کراچی میں کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے کے لیے رینجرز حکام نے آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی سندھ کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور زبردستی ان سے گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے۔ اس واقعے کے بعد سندھ کے ایک درجن سے زائد سینئر پولیس افسران نے احتجاجا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف دو ماہ کی چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا تھا جن میں آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی سندھ بھی شامل ہیں۔ تاہم اب بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد سندھ پولیس کے افسران نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ اس معاملے کی انکوائری رپورٹ آنے تک ملتوی کر دیا ہے۔
کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے معاملے نے نہ صرف حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا ہے بلکہ عسکری اداروں کی ساکھ کو بھی بری طرح مجروح کیا ہے اور اپوزیشن کے اس الزام کی تصدیق کی ہے کہ موجودہ حکومت فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ایکسٹنشن ہے۔ آرمی چیف کی طرف سے بلاول کے مطالبے پر فوری طور پر کراچی واقعے کی تحقیقات کیلئے کور کمانڈر کی زیر قیادت کمیٹی کا قیام اسی تاثر کو زائل کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button