اسٹیبلشمنٹ کے باغی ہی کیوں غدارقرار پاتے ہیں؟


ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو کو غدار وطن قرار دینے والی طاقتور اسٹیبلشمینٹ آج اگر نواز شریف کو غدار قرار دے رہی ہے تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب یہی اسٹیبلشمنٹ اپنے سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان کو بھی غدار قرار دے رہی ہو گی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدان ملک سے نہیں بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں لہذا انہیں عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے غدار وطن قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں کل کے غدار آج کے محب وطن اور آج کے محب وطن کل کے غدار ہوتے ہیں۔
اپنی آدھی سے زائد زندگی فوجی آمروں کے زیر اقتدار گزارنے والے پاکستان میں ہر خاص و عام جانتا ہے کہ لفظ اسٹیبلشمنٹ سے دراصل کیا مراد ہے۔ معروف صحافی اور تجزیہ نگار وسعت اللہ خان بی بی سی کے لیے اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ دراصل اس جرنیلی و نوکر شاہ خانوادے کو کہتے ہیں جس کے بچے اکثریت پسند کے بجائے عسکریت پسند سیاسی کیرئیر اپناتے ہیں۔ اس خاندان کے دیگر بزرگ طبعاً حساس ہیں لہذا محتاط لوگ تہذیب کے تقاضوں کی خاطر ان کا پورا نام لینے کے بجائے بس خلائی مخلوق، فرشتے، محکمہ زراعت، سافٹ وئیر انجینیر، شمالی علاقہ جات کے ٹورسٹ گائیڈ اور ڈبل ڈور ویگو ڈرائیور وغیرہ کہتے ہیں۔ وسعت اللہ لکھتے ہیں کہ اتنے سارے پیار کے القابات اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ خانوادے کے بزرگ عوام سے اور عوام ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ان بزرگوں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ محبِ وطن عناصر اور غداروں پر کڑی نظر رکھیں مبادا کہیں ادل بدل نہ ہو جائے۔
محاورہ ہے کہ گھوڑا گھاس سے یاری لگائے گا تو پھر کھائے گا کیا؟ لہذا اسٹیبلشمنٹ کے بھی نہ تو مستقل حریف ہوتے ہیں اور نہ ہی مستقل حلیف ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی دوستی یا دشمنی کا معیار بس یہ ہے کہ جب آپ کو ایک طے شدہ نظریہ پاکستان دے دیا گیا ہے تو پھر اپنا علیحدہ نظریہِ پاکستان گھڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ دیگر ریاستوں کے برعکس پاکستان میں غداری کو ایک ایسا غیر مستقل ذاتی عیب تصور کیا جاتا ہے جس کا دیگر امورِ مملکت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بالکل ایسے جیسے سفید لباس پر اگر گندگی کے چھینٹے پڑ جائیں تو آپ اسے پھینکتے تھوڑی ہیں بلکہ دھو دھلا کر پھر سے پہن سکتے ہیں۔ اس بابت اسٹیبلشمنٹ کی فراخ دلی کی اس سے زیادہ روشن مثالیں کیا ہوں گی کہ حسین شہید سہروردی نے مشرقی بنگال کو متحدہ پاکستان کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، پھر وہ پاکستان کے وزیرِاعظم بنے اور پھر غدار قرار پائے اور مرے تو ایک عظیم پاکستانی کے کفن میں دفنائے گئے۔
بانیِ پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح، ایوب خان کی صدارتی حریف بننے کے سبب انڈین ایجنٹ قرار پائیں۔ لیکن مرتے وقت مادرِ ملت کا خطاب بھی ان کی قبر کے کتبے پر لکھا گیا اور صدر ایوب کی جانب سے انکی مرقد پر پھول بھی چڑھائے گئے۔ جی ایم سید کئی بار محبِ وطن اور اس سے کہیں زیادہ مرتبہ غدار قرار دیے گئے۔ بھلا ایسا غدار کہاں ملے گا جسے ملک کا جرنیلی صدر ضیاءالحق اس کی خدمات کے عوض گلدستہ بھی پیش کرے۔ خان عبدالغفار خان پختونوں کی نظر میں عظیم قوم پرست اور ہماری اسٹیبلشمٹنٹ کی ڈائریکٹری میں غدار رہے۔ جب انکا انتقال ہوا تو نظریہ پاکستان کے علم بردار روزنامہ نوائے وقت نے اس غدار کی خدمات پر اسے خراجِ تحسین بھی پیش کیا اور پشاور ائیرپورٹ کا نام بھی باچا خان ائیرپورٹ رکھا گیا۔
شیخ مجیب الرحمان تو بہت ہی عجیب غدار تھا۔ پہلے اسے انڈین ایجنٹ ثابت کیا گیا، پھر اس انڈین ایجنٹ کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ جب فیصلہ کن اکثریت کی بنیاد پر اس نے ’انتقالِ اقتدار ورنہ علیحدگی‘ کا نعرہ لگایا تو وہ پھر سے انڈین ایجنٹ ہو گیا اور پھر اس انڈین ایجنٹ کا ایک آزاد ملک کے وزیرِاعظم کی حیثیت سے لاہور میں شاندار استقبال ہوا۔
پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے غدار قرار دیا اور جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں انہیں انڈین مفادات کا نگہبان کہتی رہیں مگر۔ جب بھٹو ضیاء الحق کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھائے گئے تو عوام اور تاریخ کی عدالت نے ان کو شہادت کے مرتبے پر فائز کیا اور انکی پھانسی کو جوڈیشل مرڈر قرار دیا۔ بھٹو کی بیٹی بینظیر کو بھی ان کے مخالفین نے اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر سکیورٹی رسک قرار دیا اور دونوم مرتبہ انکی حکومت گرا دی گئی لیکن تاریخ کے پنوں میں وہ بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئیں اور ان کے مخالفین ان کی سیاسی عظمت تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے۔ سندھ میں بھٹو کی پی پی پی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ضیاء کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کو بنایا۔ بعد ازاں ایم کیو ایم کے بانی کی حب الوطنی اور غداریت بھی اسی راستے سے گزری اور آج وہ سند یافتہ غدار ہیں جن کا چہرہ اور آواز آج پاکستانی الیکٹرونک میڈیا پر نہ تو دکھایا جاسکتا ہے اور نہ ہی سنائی جا سکتی ہے۔
اور اب باری ہے نواز شریف کی جنھوں نے اپنی پہلی وزارتِ عظمی کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر بے نظیر بھٹو کو قومی ایٹمی پروگرام کے لیے سکیورٹی رسک قرار دیا۔ وہی نواز شریف دوسری وزارتِ عظمیٰ کے دوران لاہور میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کا استقبال کرنے کے سبب نرم گیر قرار پائے مگر کارگل کے کمبل سے پاکستان کی گلو خلاصی بھی اسی نرم گیر انڈیا نواز نے کروائی ورنہ مشرف نے تو پاک فوج کو بری طرح پھنسا دیا تھا۔ لیکن تیسری وزارتِ عظمی کے بعد تو اب نواز شریف ملکی سیاست میں فوج کی مسلسل مداخلت کا سوال اٹھا کر سیدھے سیدھے پاکستان دشمن اور غدار ہو چکے ہیں۔ 20 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کی پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دھار تقریر کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان اور انکی پوری حکومتی مشینری ان کو بھارتی ایجنٹ اور غدار وطن ثابت کرنے کے لیے زور لگا رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کسی سیاستدان کی ساکھ پر حملہ کرنا ہو تو سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ اس کو بھارت کا ایجنٹ قرار دے دیا جائے۔ تاہم دوسری طرف پاکستانی عوام بھی اس نسخے سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ دوسروں کو غدار وطن وہی قرار دیتے ہیں جو دراصل خود غدار ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو یاد ہوگا کہ جنرل مشرف اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں دونوں سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو غدار قرار دیتے رہے لیکن پھر تاریخ کا پہیہ گھوما اور وہی جنرل مشرف پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے ہاتھوں آئین شکنی کے الزام میں غدار وطن قرار پائے۔
پاکستان کی تہتر سالہ سیاسی تاریخ میں سویلین وزرائے اعظم کو غدار وطن قرار دینے کے ٹرینڈ کے پیش نظر خدشہ یہی ہے کہ آج کے عظیم محبِ وطن سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان بھی مستقبل قریب میں میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں غدار وطن قرار پائیں گے۔ پچھلے دنوں خود سے استعفی مانگنے والے جرنیل کی چھٹی کروا کر گھر بھجوا دینے کی تڑی لگانے والے عمران خان کو غداروں کی فہرست میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی سیاست دانوں کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے غداری کا الزام ایک میڈل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے غدار ہیں ملک کے نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button