مطیع اللہ جان کا اغوا: آزاد میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی


میڈیا کا گلا گھونٹے والوں پر بے لاگ تنقید کرنے والے معروف اور نڈر صحافی مطیع اللہ جان کا مبینہ طور پر ایک ریاستی ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں اغوا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ میڈیا کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن میں تیزی لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
مطیع اللہ جان کو 21 جولائی کے روز اسلام آباد میں ان کی اہلیہ کے سکول کے باہر سے اغوا کیا گیا جب وہ انکو گھر واپس لے جانے کے لیے سکول پہنچے۔ مطیع کی گاڑی سکول کے باہر کھڑی ملی۔ ان کی اہلیہ سکول کے اندر کافی دیر ان کا انتظار کرتی رہیں۔ پھر جب انہوں نے سکول سے باہر نکل کردیکھا تو مطیع اللہ کی گاڑی کھڑی تھی مگر وہ وہاں موجود نہ تھے۔ چابی بھی گاڑی کے اندر موجود تھی اور شیشے کھلے تھے۔ گاڑی کواس حالت میں دیکھ کران کی اہلیہ نے مطیع اللہ جان کوتلاش کرنا شروع کیا مگر وہ کہیں قریب نظرنہ آئے۔ بعد میں انہوں نے قریبی علاقوں میں بھی ان کوتلاش کیا اوران کے قریبی دوستوں سے رابطہ کرکے ان کے بارے میں پوچھا مگر کسی کوان کے بارے علم نہ تھا۔ بعد ازاں سکول کے باہر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج دیکھی گئی تو پتہ چلا کہ کچھ نامعلوم افراد نے انہیں بزرو طاقت اغوا کیا۔ مطیع اللہ جان کی اہلیہ کے مطابق وہ صبح ساڑھے نو بجے انھیں سیکٹر جی سکس میں واقع اس سکول تک چھوڑنے آئے تھے جہاں وہ پڑھاتی ہیں۔ انھیں سکول کے سکیورٹی گارڈ نے مطلع کیا کہ ان کی گاڑی سکول کے باہر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سے کھڑی ہے۔
مطیع اللہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کو پچھلے کچھ عرصہ سے سے ریاستی اداروں کی جانب سے دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا تھا جس کی بنیادی وجہ ان کا ایم جے یوٹیوب چینل تھا جس پر وہ آزادی کے ساتھ بات کیا کرتے تھے۔ خیال رہے کہ تحریک انصاف حکومت کے دو سال کے دوران 9 صحافی موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں جبکہ اس دوران 91 صحافیوں کو ہراساں کیا گیا اور قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔
ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے والے دو گاڑیوں میں آئے جو تعداد میں سات تھے۔ اغوا کی اس کارروائی کے دوران مطیع اللہ جان نے بھرپور مزاحمت کی لیکن اغوا کار انہیں گھسیٹے ہوئے ایک گاڑی میں ڈال کر غائب ہوگئے۔ مطیع اللہ کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ انہیں ریاستی اداروں نے اغواء کیا ہے جن کی جانب سے انہیں دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی صحافتی تنظیموں نے مطیع کے اغوا کی پروزور مذمت کرتے ہوئے ان کی فوراً رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مطیع اللہ جان کا اغوا ٹوئٹر پر بھی ٹرینڈ کررہا ہے۔ واضح رہے کہ مطیع اللہ جان پر جسٹس فائز عیسی کیس کی بے لاگ رپورٹنگ کرنے پرتوہین عدالت کا ایک مقدمہ بھی زیرسماعت ہے اور سپریم کورٹ نے انہیں اس کیس میں 22 جولائی کو طلب کررکھا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ مطیع اللہ جان کو 21 جولائی بروز منگل اسلام آباد سے خفیہ والوں نے اغواءکیا ہے۔
خیال رہے کہ اپنے اغوا سے قبل مطیع اللہ جان نے سابق فوجی ترجمان عاصم سلیم باجوہ کی جائیدادوں اور گاڑیوں کے حوالے سے ٹوئٹر پر تنقیدی مواد ڈالا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے خواجہ برادران کی ضمانت سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ‏جسٹس باقر اور جسٹس مظہر نےسیاسی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا نقاب نوچ ڈالا، فیصلے میں لکھا احتساب کے نام پر وفاداریاں تبدیل کی گئیں، جماعتیں توڑی گئیں، بونوں کو پال کر اونچے مقام و اقتدار میں بیٹھایا گیااورجرائم پیشہ و دہشت گردوں کو تربیت، پیسہ،تحفظ، اختیار اور شہرت دی گئی۔
یاد رہے کہ مطیع اللہ جان نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور وہ گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکے ہیں تاہم آج کل وہ اپنا یو ٹیوب چینل چلا رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے والد فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز تھے۔ خود مطیع نے بھی فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی۔ ماضی میں بھی مطیع اللہ جان کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ستمبر2017 میں بھی مطیع اللہ جان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں بارہ کہو کے مقام پر پیش آیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار افراد نے مطیع اللہ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر اینٹ دے ماری تھی جس سے ونڈ سکرین پر دراڑیں پڑی تھیں۔ حملے کے وقت گاڑی میں مطیع اللہ جان کے بچے بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔
جون 2018 جب میں اس وقت کے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سوشل میڈیا کے بعض اکاؤنٹس پر ریاست مخالف پراپیگنڈہ کرنے کا الزام لگایا تھا تو اس میں بھی مطیع اللہ جان کا اکاؤنٹ نمایاں کر کے دکھایا گیا تھا۔
دریں اثنا مطیع اللہ جان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی ایک ٹویٹ کی گئی ہے جس میں ان کے بیٹے نے لکھا ہے کہ ’میرے والد مطیع اللہ جان کو اسلام آباد مرکز سے اغوا کر لیا گیا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فوری طور پر تلاش کیا جائے اور اس کے پیچھے کارفرما ایجنسیوں سے سوال کیا جائے۔‘
دوسری طرف مطیع کے بھائی شاہد اکبر عباسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے آئینی درخواست دائر کی ہے۔ یہ درخواست اسلام آباد کے معروف وکیل بیرسٹر جہانگیر خان جدون نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت ان کی فوری رہائی کا حکم دے۔ درخواست میں وزارت داخلہ، دفاع اور اسلام آباد پولیس کو فریق بنایا گیا ہے۔
مطیع اللہ جان کے اغوا کی خبر عام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف تبصروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور انہیں مطیع اللہ کے اغوا کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف خفیہ والوں کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مطیع اللہ کا اغوا ابھی صرف ٹریلر ہے اور اگلے چند دنوں اور ہفتوں میں مزید ریاست مخالف صحافیوں کی گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button