گوادر معاہدہ ٹوٹنے اور دوبارہ دھرنے کا امکان پیدا ہو گیا

گزشتہ ماہ حکومت اور گوادر کو حق دو تحریک کے مابین پایا جانے والا معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے جسکی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے بڑے مطالبات پر عملدرآمد میں کوئی پیش رفت نہ ہونا ہے۔ گوادر کی عوامی تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے الزام عائد کیا ہے کہ انکا 32 روزہ دھرنا ختم کرنے کے لیے طے پانے والے معاہدے میں نشاندہی کیے جانے والے مسائل کے حل میں حکومت سنجیدہ دخھائی نہیں دیتی ہے چنانچہ وہ دوبارہ دھرنا دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

تربت میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکام کی عدم توجہی کے باعث صوبے بھر میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ صوبائی حکومت مکران کے ساحل کے قریب غیر قانونی ماہی گیری کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے گی اور ایران کے ساتھ سرحدی تجارت سے وابستہ افراد کو سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی ماہی گیری جاری ہے اور ابھی تک سرحدی تجارت کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

مولانا ہدایت الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ گوادر اور دیگر علاقوں کے لوگ اب بھی چیک پوسٹوں پر فورسز کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں حالانکہ ان کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تربت میونسپلٹی کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی شروع نہیں کی اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس ان کی تنخواہیں ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
مولانا ہدایت الرحمٰن نے منشیات کے کاروبار میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔

انہون نے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کی مذمت کرتے ہوئے لاپتا نوجوانوں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔
بعد ازاں مولانا ہدایت الرحمٰن نے کمشنر مکران شبیر احمد مینگل سے ملاقات کی اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ہٹانے اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ خیال رہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں ساحلی شہر کے لوگوں نے نومبر میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد ہونے والے تاریخی احتجاجی دھرنوں میں خواتین اور بچوں سمیت عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی تھی، جن کا مطالبہ تھا کہ انہیں پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے اور گوادر کے سمندر میں ٹرالر مافیا کا خاتمہ کیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دھرنے کا نوٹس لیے جانے کے بعد وزیر اعلی بلوچستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت مولانا ہدایت الرحمن نے دھرنا ختم کر دیا تھا لیکن ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال مطالبات پورے نہیں کیے گئے. یاد رہے کہ حکومت نے گوادر کو حق دو تحریک کے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے ایک مہینے کا وقت مانگا تھا۔

دوسری جانب حکومت بلوچستان کے مطابق مظاہرین کے مطالبات پر کافی پیش رفت ہو چکی یے۔ اسکا کہنا ہے کہ ڈجی جی فشریز کے مرکزی دفتر کو فوری طور پر کوئٹہ سے گوادر منتقل کردیا گیاہے تاکہ ماہی گیروں کے مسائل ہوں، فشریز اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کا گشت بڑھادیا گیا ہے، جس کی مدد سے غیرقانونی ٹرالرز کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ٹرالنگ میں نمایاں کمی نظر آئی ہے۔

یونیورسٹیز میں 228 پی ایچ ڈی پروگرام بند کیوں ہو گئے؟

بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ گوادر تحریک کے ایک اور بڑے مطالبے پر بھی کافی پیش رفت ہوچکی ہے اور ماہی گیروں کے لیے سمندر میں جانے کے لیے خصوصی ٹوکن سسٹم کا خاتمہ کردیا گیا ہے، اب ماہی گیر بغیر کسی اجازت کے سمندر میں آ جاسکتے ہیں۔ اسکا۔کہنا یے کہ گوادر، مکران کوسٹل ہائی وے اور دیگر شاہراؤں پر غیر ضروری چیک پوسٹوں کا بھی خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ گوادر میں حکومتی احکامات پر تمام شراب خانے بھی بند کردیے گئے ہیں۔

بلوچستان حکومت کا دعوی ہے کہ کنٹانی کو مکمل طور پر ضلعی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا ہے، ہر قسم کی مداخلت ختم کردی گئی ہے اور وفاقی حکومت کے تعاون سے پاک-ایران سرحد پر مند کے مقام پر مارکیٹ کے قیام کاآغاز ہوگیا ہے۔ صوبائی حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ گوادر یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تعیناتی کر دی گئی ہے اور جلد ہی کلاسز کا باقاعدہ آغاز کردیا جائے گا۔یہ بھی کہا جا رہا یے کہ جی ڈی اے کے ڈی جی، ڈپٹی کمشنر گوادر اور اسسٹنٹ کمشنر پسنی کو فی الفور تبدیل کردیا گیا ہے اور ان کی جگہ صوبے کے قابل ترین افسران کو ان عہدوں پر تعینات کردیا گیا ہے۔

تاہم دوسری جانب گوادر تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے صرف آخری دو مطالبات تسلیم کیے ہیں جب کے پہلے تین بڑے مطالبات میں سے ابھی تک کسی پر عملدرآمد نہیں ہوا اور عوام کو ماموں بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Related Articles

Back to top button