ایک امرتسری لاہوری کی یاد داشتیں!

تحریر:عطا الحق قاسمی ، بشکریہ : روزنامہ جنگ

منیر احمد منیر سے میری دیرینہ شناسائی ہے میرے خیال میں ہمارے درمیان دو صحافی ایسے ہیں جنہوں نے باکمال انٹرویوز کئے ہیں ایک الطاف حسن قریشی اور دوسرے منیر احمد منیر،الطاف حسن قریشی ہم سب کے محترم ہیں ۔منیر احمد منیر نے بھی یقیناً ان سےبہت کچھ سیکھا ہوگا تاہم منیر احمد منیر کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ جس سے انٹرویو کرتے ہیں اس کی کھرچن تک سامنےلے آتے ہیں وہ شاید اردو کےسب سے زیادہ تفصیلی انٹرویو لینے والے ہیں چنانچہ ان کا انٹرویو ایک پوری کتاب ہی میں سما پاتا ہے ابھی حال ہی میں ان کے انٹرویو پر مشتمل ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب ’’میرے وقتوں کا امرتسر اور لاہور ‘‘کے عنوان سے سامنے آئی ہے ،یہ ایک عام شہری ہیں ان کانام ڈاکٹر احمد حسن ہے ان کی عمر نوے ننانوے برس ہے اور وہ ڈینٹل سرجن ہیں ،وہ لاہور کے نسبت روڈ پر کئی دہائیاں رہائش پذیر رہے ہیں اور ان دنوں جیل روڈ پر ان کی رہائش ہے، ننانوے برس کی عمر میں بھی ان کی یادداشت کمال کی ہے۔ لاہور کی تاریخ پر ہمارے واصف ناگی بھی بہت سوں سے آگے ہیں لیکن وہ لاہور کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں جبکہ ڈاکٹر احمد حسن کے انٹرویو میں لاہور اور امرتسر کے خدوخال، یہاں کا کلچر اور تہذیبی اور سیاسی جہتیں بھی نظر آتی ہیں۔ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے امرتسر کی مسجد خیر الدین سیاسی مجلسوںکا گڑھ تھی مولانادائود غزنوی اور مولانا اسماعیل غزنوی زبردست مقرر تھے وہاں مسلم لیگ اور احرار کے جلسے ہوتے آغا شورش کاشمیری بھی یہاں خطاب کے جوہر دکھاتے تھے، مجھے اس انٹرویو میں جو بات بہت مزے کی لگی وہ اردو کے ممتاز شاعر سیف الدین سیف کے حوالے سے تھی، ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ سیف صاحب خاکسار تحریک امرتسر کے ایریا کمانڈر تھے جب خاکسار تحریک پر پابندی لگی تو کئی مہینےمسجد خیرالدین میں چھپے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نےریجنٹ سینما لاہور کے سامنے تسکین ہوٹل قائم کیا۔امرتسر میں ان کے والد کی تمباکو کی دکان تھی انہیں موچی گیٹ لاہور کے باہر تمباکو کی دکان الاٹ ہوئی اس کا نام انہوںنے ’’امرتسر یاں دی ہٹی‘‘ رکھا تاہم یہ دکان پر خود نہیں بیٹھتے تھے، ہمارے ایک اور بڑے شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ امرتسر میں طالب علم تھے لیکن صبح والد کی دکان پر کلچے لگاتے تھے لاہور ملازمت کے بعد بھی امرتسر آتے تو والد کا ہاتھ بٹاتے۔ اسی طرح صوفی سوپ کے صوفی ہدایت اللہ کی بھی امرتسرمیں کلچوں کی دکان تھی صوفی صاحب نے امرتسر کے بعد لاہور میں بھی کلچوں کا تنور لگایا اور پھر صوفی سوپ کے نام سے صابن بنانا شروع کیا اور اس کاروبار میں بہت برکت پڑی۔ڈاکٹر احمد حسن کے بقول پاکستان کے قیام سے پہلے نسبت روڈ کے ڈاکٹر پریم ناتھ کا بن اور مکھن بہت مشہور تھا ،نسبت روڈ پر ہی ساگر ہوٹل کی آئس کریم بہت مشہور تھی ۔ہندوعورتیں شام کو ساڑھیاں پہن کر باہر نکلتیں آج جہاں بختیار لیبر ہال ہے وہاں حکومت کا پتھر کے کوئلے کا ڈپو تھا ۔لیبر لیڈر بشیر بختیار ان کے بھائی اور والد امرتسر میں کارپینٹر تھے نسبت روڈ ایک بہت پوش ایریا تھا لاہور کے نامور ڈاکٹر یہیں قیام پذیر تھے امرتسر میں حکومت نے مسلمانوں کی جوتوں کی دکانیں جلا کر راکھ کر دیں تو انہیں شروع میں نسبت روڈ پر جگہ دی گئی جس سے علاقہ بہت گنجان ہوگیا۔اس کتاب میں بہت دلچسپ باتیں درج ہیں، مثلا ًسرگنگارام کے گیتا بھون کا ٹیوب ویل سارے نسبت روڈ کو پانی سپلائی کرتا تھا ۔گیتا بھون میں ہندوئوں کی مقدس کتاب گیتا کا درس ہوتا تھا یہ گیتا ہال بعد میں جماعت الدعوۃ کے تصرف میں آ گیا۔ انارکلی لاہور میں بالک رام کی جو ’’بیلی رام اینڈ برادرز فارمیسی ‘‘ تھی اس کا میڈیسن اور گندے بروزے کا کارخانہ ہربنس پورے میں تھا جو ان دنوں جنگل تھا اور ڈاکوئوں کی آماجگاہ تھا ڈاکو لوٹا ہوا مال وہاں جاکر آپس میں تقسیم کرتے تھے، پورے لاہور میں چند ایک کاریں تھیں مال روڈ سنسان رہتی جسٹس نسیم حسن شاہ پست قامت تھے اور ان کے والد محسن شاہ بھی ٹھگنے تھے۔ڈاکٹر احمد حسین ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز وہ مال روڈ پر کار ڈرائیو کر رہے تھے جب لوگوں کو ان کے قد کی وجہ سے وہ نظر نہ آئے تو شور مچ گیا کہ گاڑی خودبخود بھاگی جا رہی ہے ۔ان دِنوں راقم الحروف کا دفتر وارث روڈ پر ہے اور ڈاکٹر احمد حسن بتاتے ہیں کہ یہاں ہندو اور عیسائیوں کی اکثریت تھی صرف دو مسلمان گھرانے یہاں رہائش پذیر تھے ان میں ایک جسٹس نسیم حسن شاہ کے ماموں حافظ قرآن سید معراج الدین کابھی تھا جو بیوی سمیت عیسائی ہو گیا تھا ۔ان دنوں جہاں فاطمہ جناح میڈیکل کالج ہے یہاں سیوک رام میڈیکل کالج تھا مٹھائی کی دکانیں موچی دروازے میں تھیں ان دنوں ہیرا منڈی کے رس گلے بہت مشہور تھے ۔اِن دنوں جہاں فوڈ اسٹریٹ ہے یہاں سندھی ہندوئوں کے مکان تھے نیلا گنبد میں موٹر سپیئر پارٹس والے سارے دکاندار سندھی ہندو تھے پورے لاہور میں صرف دو پٹرول پمپ تھے جو نیلا گنبد میں تھے ایک میلا رام اور دوسرا ملک ہیرا کا، دھنی رام روڈ پر کپور تھلا ٹیلر بہت مشہور تھا 1940کے اجلاس کیلئے قائد اعظم نے اپنی شیروانی یہیں سے سلوائی تھی۔

منیر احمد منیر نے ڈاکٹر احمد حسن کی امرتسر اور لاہور کے حوالےسے یادداشتیں چار سو صفحات پر پھیلائی ہیں اس کتاب میں میری دلچسپی یہ تھی کہ میں بھی امرتسر ی+لاہوری ہوں اس حوالے سے آخر میں اپنا صرف ایک شعر درج کرتا ہوں؎

میرا لاہور بھی ہے اور ہے امرتسر بھی

دونوں شہروں سےشناسائی پرانی میری

Related Articles

Back to top button