کیپٹن صفدر کے خلاف نیب کا وارنٹ گرفتاری بدنیتی پر مبنی ہے

پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کے وارنٹ بددیانتی پر مبنی تھے کیوں کہ وہ حکومت اور نیب کے سخت نقادوں میں سے ایک تھے۔
جسٹس لال جان خٹک اور جسٹس سید ارشاد علی پر مشتمل بینچ نے اعلان کیا کہ اگر کیپٹن (ر) محمد صفدر کے اثاثوں کی تحقیقات کی جانچ پڑتال کی گئی تو اس میں نیب کے چیئرمین اور خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل نیب کی جانب سے انہیں گرفتار کرنے کی بدنیتی شامل تھی۔ عدالت نے 27 اپریل کو کیپٹن (ر) صفدر کی درخواست کو قبول کیا تھا جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد بھی ہیں۔ عدالت عالیہ نے نیب خیبر پختونخوا کی جاری انکوائری میں ان کی گرفتاری سے قبل ضمانت کی توثیق کی تھی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں نیب چیئرمین کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد کیپٹن (ر) صفدر نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ 13 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں بینچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار (محمد صفدر) کو جاری متعدد کال اپ نوٹس کے علاوہ لاہور میں نیب آفس سے ان کی پیشی کے لیے کال اپ نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ‘یہ معقول طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ درخواست گزار کی گرفتاری کےلیے جاری کردہ وارنٹ بدنیتی پر مبنی ہے’۔ بینچ نے فیصلے میں کپٹن (ر) محمد صفدر کو ہدایت کی کہ ‘کیونکہ درخواست گزار نیب اور حکومت کے نقاد ہیں’، اس لیے وہ انکوائری یا چھان بین میں نیب کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور اگر کسی موقع پر یہ پتا چلتا ہے کہ وہ تفتیش میں تعاون کرنے میں ناکام رہے تو اس صورت حال میں نیب عدالت سے رجوع کرنے کے لیے آزاد ہے اور عدالت اس حکم کو واپس لے سکتی ہے۔ بینچ نے درخواست گزار کو جاری کردہ کال اپ نوٹس اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (سی آئی ٹی) کے سامنے اس کی مسلسل پیشی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ عدالت کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ درخواست گزار کی طرف نیب کی بدنیتی کی ایک اور مثال اس حقیقت سے عیاں ہے کہ سال 2018 میں ان کو متعدد کال اپ نوٹس جاری کیے گئے جبکہ 2019 میں ایک بھی کال اپ نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار کے نکتہ کو نیب کے ایڈیشنل ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل عظیم داد نے یہ کہتے ہوئے منسوخ کردیا کہ نیب ہمیشہ ایک خود مختار ادارے کی حیثیت سے اپنے طور پر کام کرتا ہے اور درخواست گزار کے خلاف خالصتاً میرٹ پر مقدمہ چلا رہا ہے اور اس میں بدنیتی کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے، انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ آرڈیننس کے تحت کام کرتے ہوئے نیب کو کسی اور سے ہدایت ملتی ہے۔ عدالت کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ مختلف دستاویزات پر نیب کے سوالات کا جواب دینے کے علاوہ کیس کا ایک اور واضح پہلو یہ تھا کہ درخواست گزار باقاعدگی سے عدالت میں حاضر ہوتا تھا اور عبوری حکم کا غلط استعمال نہیں کیا جس کے تحت اسے عبوری ضمانت قبل از گرفتاری ملی جبکہ پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے بھی کیس کے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button