کرکٹر ماجد خان کو "بوُکو” کہہ کر کیوں پکارا جاتا تھا؟


بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کے سٹار کرکٹر ماجد خان کو انکے عروج کے زمانے میں ان کے ساتھی کرکٹر بوکو کے نام سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ تاہم ان کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ماجد خان کو بوکو کیوں کہتے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق رکن پرویز سجاد دورہ انگلینڈ کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک رات لمبے سفر کے بعد پاکستانی۔کرکت ٹیم لیسٹرشائر کے ایک علاقے میں پہنچی تو دیر ہو چکی تھی اور کسی ریسٹورانٹ میں کھانا ملنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا چھ کھلاڑیوں نے اپنے ہوٹل میں ہی 36 سینڈوچز کا آرڈر دے دیا۔ پرویز سجاد کا خیال تھا کہ 36 کا مطلب 36 ہی ہو گا لیکن جب ویٹر ڈیڑھ گھنٹے بعد دو بھری ہوئی ٹرے کے کر آیا تو انھیں اندازہ ہوا کہ ڈبل سینڈوچز کا مطلب 36 نہیں بلکہ 72 ہے۔ یہ وہ موقع تھا جب پرویز سجاد نے کہا کہ ’’بوکو‘‘ کو کمرے سے بلا لاو تاکہ وہ ان سینڈ وچز سے نمٹ لے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم سب ماجد خان کو پنجابی میں ’بوکو‘ کہتے تھے۔ چنانچہ ماجد خان آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھے سینڈوچز صاف کر دیئے۔
یاد رہے کہ ماجد خان نیازی وزیراعظم عمران خان نیازی کے فرسٹ کزن ہیں جنہوں نے ان کو کرکٹ ٹیم دنیا کا حصہ بنایا تھا۔ تاہم ٹیم کا کپتان بننے کے بعد عمران خان نے سب سے پہلے ماجد خان کا پتہ صاف کیا اور انہیں ٹیم سے باہر کردیا۔ سینڈ وچز والے واقعے کے بارے ماجد خان کا کہنا تھا کہ جوانی میں انکی خوراک اچھی تھی اور تب ایسے کھل کر کھایا جاسکتا تھا۔
جب ماجد خان کے بیٹے سابق ٹیسٹ کرکٹر بازید خان سے پوچھا گیا کہ بوُکو کا کیا مطلب ہوتا ہے اور آپ کے والد سے اس کا کیا تعلق تو بازید نے بتایا کی بوکا چمڑے کے ایک مشکیزے کی طرح ہوتا ہے جسے کنویں میں ڈال کر پانی نکالا جاتا ہے۔ میرے والد چونکہ سلپ میں کیچ اچھے پکڑتے تھے چنانچہ ان کے ایک ساتھی کرکٹر فقیراعزاز الدین نے ان سے ایک مرتبہ مذاقاً کہا کہ آپ کے ہاتھ بہت بڑے ہیں جن سے کیچ نکل کر نہیں جا سکتے۔ آپ کے ہاتھ بوکے جیسے ہیں بعد میں یہ لفظ بوکے سے بوُکو بن گیا۔
انڈیا کے سابق سپنر بشن سنگھ بیدی کے مطابق ماجد خان صرف اچھی وکٹ پر ہی رنز سکور نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مشکل اور خراب وکٹ پر بھی کمال کی بیٹنگ کیا کرتے تھے۔ ماجد خان کی سب سے بڑی خوبی جس کا ہر کوئی اعتراف کرتا ہے وہ ان کی سپورٹسمین شپ تھی۔ وکٹ کے پیچھے کیچ ہونے کے بعد وہ کریز چھوڑنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے تھے لیکن جنوری 1983 میں انڈیا کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں دنیا نے انھیں مختلف روپ میں دیکھا جب امپائر جاوید اختر نے انھیں صفر پر کپل دیو کی گیند پر وکٹ کیپر کرمانی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ قرار دے دیا۔
ماجد خان کو پتہ تھا کہ گیند نے انکے بلے کو نہیں چھوا تھا لہٰذا وہ پہلی بار غصے میں بڑبڑاتے ہوئے پویلین جاتے ہوئے نظر آئے۔ یہ ایک شاندار کیریئر کا افسوسناک اختتام تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور ٹیسٹ شروع ہوتے وقت ماجد سب سے زیادہ 3931 رنز بنانے والے پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر تھے لیکن اسی اننگز میں جاوید میانداد 85 رنز بنا کر ان سے آگے نکل گئے تھے۔

Related Articles

Back to top button