الیکشن کی تاریخ کے اعلان پر حکومت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں

تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ جمہوریت میں احتجاج کا حق ہے یا نہیں؟ اگر احتجاج کا حق بھی نہیں دیا جائے گا تو پھر کیا آپشن رہ جاتا ہے، 6 دن میں ہمیں پتہ چل جائے گا کہ سپریم کورٹ ہمارے حقوق کا تحفظ کرتی ہے یا نہیں، ہمیں عدالت سے پروٹیکشن چاہیے جو ہمارا حق ہے۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاہمیں پرامن احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی، رات کے اندھیرے میں لوگوں کے گھروں پر حملے کیے گئے،اگر مجھے اپنی قوم کا خیال نہ ہوتا اور میں بیٹھ جاتا تو بہت خون خرابہ ہونا تھا، نفرتیں بڑھنی تھیں لیکن پولیس بھی ہماری ہے اس لیے ہم نے اپنے ملک کی خاطر فیصلہ کیا۔

عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کے تحت آزادی مارچ ختم کرنے کی خبروں کی ترید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے انتخابات کا اعلان نہیں ہوا تو پوری تیاری کے ساتھ دوبارہ نکلیں گے۔کہا جارہا تھا کہ ہم انتشار کرنے کے لیے جا رہے ہیں، کیا کوئی اپنے بچوں و عورتوں کو لے انتشار کرنے جاتا ہے،اگر مجھے اپنی قوم کا خیال نہ ہوتا اور میں وہاں بیٹھ جاتا تو بہت خون خرابہ ہونا تھا، نفرتیں بڑھنی تھیں لیکن پولیس بھی ہماری ہے اس لیے ہم نے اپنے ملک کی خاطر فیصلہ کیا،کوئی نہ سمجھے کہ میری اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہوئی ہے، حکومت کو 6 روز دے رہا ہوں اگر انتخابات کا اعلان نہ ہوا تو بھرپور تیاری کے ساتھ جائیں گے کیونکہ اس بات ہماری تیاری نہیں تھی۔

تاریخی اقدام، اسلام آباد ہائیکورٹ کی لائیو سٹریمنگ کا فیصلہ

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مردان میں سب سے پہلے شہید کارکن کے گھر گیا، دوسرے کارکن فیصل عباس لاہور میں شہید ہوئے ہیں ان کے گھر پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنما گئے ہیں،ان دونوں کے لیے ایک ایک کروڑ روپے پارٹی کی طرف سے اکٹھا کریں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایک حقیقی آزادی کے جذبے سے نکلے تھے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ بیرونی ملک کی سازش سے کرپٹ ترین مافیا کی حکومت کو مسلط کیا۔ اس لئے ہم ان کے خاندان کو جتنا خراج تحسین پیش کریں اتنا کم ہے، پُرامن احتجاج میں جو ہمارے ساتھ ہوا اور پُرامن احتجاج اس لئے تھا کہ پہلے سازش بنتی ہے، اس میں ہر قسم کا ایکٹر شامل ہو کر 22 کروڑ لوگوں کی منتخب حکومت کو گراتا ہے، ملک کی سب سے بڑی توہین یہ ہے کہ 30 سال جو لوگ اس ملک کو پیسے چوری کرکے اور پیسے باہر بھیج کر کھا رہے تھے، ہر قسم کے جرم کررہے تھے، ان لوگوں کو ملک پر مسلط کیا گیا۔

عمران نےکہا پہلے آپ سازش کرتے ہیں اس کے بعد چوروں کو بٹھا دیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کوئی سوچ نہیں سکتا کہ ضمانت کے اوپر انسان کو کوئی عہدہ دیا جائے۔ جبکہ یہاں پر اس کو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنادیتے ہیں، 60 فیصد کابینہ ضمانتوں پر ہو۔ اگر اس کے خلاف کوئی قوم پُرامن احتجاج نہیں کرسکتی تو پھر اس قوم کو زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے، دنیا کی ہر جمہوریت میں آپ کو پُرامن احتجاج کا حق ہوتا ہے، احتجاج کا حق بھی نہ دیا جائے۔ رات کو گھروں پر حملے کیے گیے، پنجاب پولیس نے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں دیکھا۔ جس طرح وہ گھروں میں گھسے، ہم عدالت کے پاس گئے اس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا کہ پولیس کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور رکاوٹیں ہٹا دیں، اس فیصلے کے بعد ہم سمجھے کہ رکاوٹیں ہٹا دی جائیں گی اور پولیس کی کارروائی نہیں ہوگی اس کے بعد جو ہوا ہم اس کی توقع نہیں کررہے ہیں۔

انہون نے کہا فیصل عباس کو تو پولیس کی جانب سے نیچے پھینکا گیا۔ اسی طرح جو کچھ بہنوں، بیٹیوں، وکیلوں سے کیا گیا۔ لاہور میں پولیس نے بس میں جو وکلا جارہے تھے انہیں جس طرح نکال نکال کر مارا۔ پوری قوم کے سامنے یہ ظلم ہوا، جس طرح پنجاب پولیس کو استعمال کیا گیا، پنجاب پولیس میں بہت اچھے اچھے افسران موجود ہیں لیکن موجودہ حکومت نے چن چن کر ایسے افسران کو تعنیات کیا اور پھر ان سے ظلم کروایا۔ اسلام آباد کے آئی جی کو سیف سٹی پروجیکٹ میں سزا ہونے والی تھی، شہباز شریف اس کو واپس لے کر آئے ہیں، سابق وفاقی وزیر عمر ایوب پولیس کے ساتھ بات کرنے گئے تھے، پولیس نے انہیں اتنی بے دردی سے مارا ہے، میں اب تک یہ سوچ رہا ہوں کہ کون سی پولیس اپنی عوام، شہریوں، بچوں، عورتوں، بیٹیوں کو اس طرح ملک دشمن کرکے مارتی ہے، ہمیں پہنچنے میں 20 گھنٹے لگے، جس طرح عوام نکلے ہیں، ساری رات عوام سڑکوں پر کھڑی رہی۔ لوگوں نے بچوں کو اٹھایا ہوا تھا۔ لہٰذا یہ پروپیگنڈا کہ ہم انتشار پھیلانے جارہے تھے، تو میں سوال پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی اپنے بہن، بچوں، بچیوں کو انتشار پھیلانے کے لیے آتا ہے، کیا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا کہ کس طرح لوگ نکل رہے ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین نےکہا کہ جب ڈی چوک پر بار بار شیلنگ کی گئی، سوشل میڈیا پر فوٹیجز موجود ہیں کہ کونسے دہشت گرد تھے جن پر شیلنگ کی گئی، اسی طرح لاہور کے لبرٹی چوک پر آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، جس طرح کا تشدد کراچی میں کیا گیا، کونسی ملک کی پولیس سے اس طرح کے کام کرواتے ہیں؟ رانا ثناء اللہ، شہباز شریف، حمزہ شریف، یزید کے مانے والے لوگ ہیں۔ اگر اس ملک کا انصاف کا نظام ان کو سزائیں دیتے جب انہوں نے سب کے سامنے، ٹی وی کے سامنے لوگوں کو گولیاں ماریں، اس وقت 60 لوگوں کو گالیاں لگی تھیں جس میں 14 لوگ مارے گئے تھے۔ اگر تب سزا مل جاتی تو شاید اب یہ اس طرح کا ظلم نہ کرتے جو ساری قوم نے دیکھا، ہمارے لوگ مایوس ہوئے اور پوچھا کہ کیوں ڈی چوک پر جا کر بیٹھ گئے، میں یقین دلاتا ہوں کہ 126 دن دھرنے میں بیٹھا، میرے لیے مشکل نہیں تھا کہ جب تک یہ حکومت گھنٹے ٹیکتی میں وہاں پر بیٹھتا۔ جب تک میں وہاں پہنچا تو مجھے علم ہوگیا کہ حالات کس طرف جارہے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ قوم غور سے سنے اگر مجھے ملک کی قوم کی فکر نہ ہوتی اور میرے بھی باہر پیسے اور جائیدادیں ہوتیں، میرے بیٹوںکے پاس بھی بڑی بڑی جائیدادیں ہوتیں تو شاید مجھے بھی اپنے ملک کی فکر نہ ہوتی۔ اس رات کو خون خرابہ ہونے لگا تھا ہمارے لوگ تیار ہوگئے تھے کیونکہ انہوں نے پولیس کی جانب سے دہشت گردی دیکھی۔ ہمارے لوگ انتہائی غصے میں تھے جنہوں نے یہ تماشے دیکھے، جنہوں نے عمر ایوب کا حال دیکھا ہے اور لوگ جس طرح مار کھا کر وہاں پہنچے تھے۔ اگر اس دن میں وہاں بیٹھ جاتا تو گارنٹی دیتا ہوں کہ خون خرابہ ہوجاتا۔ پولیس کے خلاف نفرتیں بڑھ چکی تھیں اس میں مزید اضافہ ہوتا۔ پولیس بھی اپنی ہے عام پولیس کا قصور نہیں ہے، انہوں نے مجرم اور گلو بٹ بٹھائے ہوئے تھے، اگر وہاں پر خون خرابہ ہوجاتا ملک میں انتشار بڑھنا تھا، ملک کے معاشی حالات آپ کے سامنے ہیں، یہ میرے ملک کا نقصان تھا۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ ہماری کمزوری تھی اور نہ ہی کوئی ڈیل ہوئی ہے میں باتیں سن رہا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوئی ہے۔ میری کسی سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔

سابق وزیراعظم نے کہا اداروں اور عوام کے بیج میں فاصلے بڑھیں گے۔ یہ ہمارے ملک کا نقصان ہے اور دشمنوں کا فائدہ ہے۔ یہ صرف ایک چیز تھی جس نے مجھے وہاں بیٹھنے سے روکا، میں یہ واضح کردوں کہ اگر کسی کو خوش فہمی ہے کہ ہم اب ان سے آرام سے مذاکرات کریں گے، یا اس امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کرلیں گے، کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔ میں اس کو جہاد سمجھتا ہوں، جب تک زندہ ہوں اس کے سامنے کھڑا رہوں گا، مجھے ذاتی طو رپر کسی چیز کی فکر ہے نا پروا۔ مجھے صرف اپنے ملک کی فکر ہے لہٰذا یہ واضح کردوں کہ 6 دن دے رہے ہیں اس کے اندر اگر انہوں نے واضح طور پر اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا تو میں پھر سے نکلوں گا۔ اب ہم پوری تیاری کے ساتھ نکلیں گے کیونکہ جس طرح پولیس کا حملہ ہوا اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا، ہم ان سے سری نگر ہائی وے کی اجازت مانگ رہے تھے ہمیں اجازت نہیں مل ہی تھی۔ ہم نے آزادی مارچ میں لوگوں کو کسی جگہ تو بتانا تھا، ڈی چوک کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے کہا انٹرنیٹ کی رفتار کم کردی تھی، میڈیا پر دباؤ ڈالا ہوا تھا، کسی کو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ ایک تو ہم دیر سے پہنچے کیونکہ انہوں نے برہان میں تین جگہ پر رکاوٹیں لگادی تھیں، اسلام آباد کے شہری نکل آئے تھے، ساری فیمیلز بار نکل گئی تھیں، ان کے اوپُر انہوں نے تشدد کیا اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے باعث جتنے لوگ زخمی ہوئے، جو ہسپتالوں میں گئے، آنسو گیس کے باوجود لوگ واپس آتے گئے، میں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے جس میں ان سے سارے سوالات کیے ہیں کہ کیا ایک جمہوریت میں ہمارے پاس احتجاج کرنے کا حق ہے یا نہیں۔ یہ ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔ یہ لوگ جو اسمبلیوں میں کروا رہے ہیں یہ غیر آئینی ہے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ووٹ کا حق چھین لیں صرف اس لیے کہ آپ کو ڈر ہے کہ آپ انتخابات ہار نہ جائیں۔

عمران خان کہنا تھا کہ چیف جسٹس سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ہم بھیڑ بکریوں کی طرح یہ چیزیں مان لیں گے؟ ہم ملک کو خود ہی بغاوت کی طرف دکھیل رہے ہیں۔ اگر پُرامن احتجاج نہیں کرنے دیں گے تو ان کے پاس کتنے راستے رہ جائیں گے؟ اس لیے ہم نے خط لکھا ہے کہ پوزیشن کو واضح کریں، 6 دنوں میں ہمیں پتہ چل جائے گا کہ کیا پاکستان کا سپریم کورٹ بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں۔ کونسا انصاف کا نظام اس چیز کی اجازت دیتا ہے ساری قوم کو پتہ ہے کہ کون حق پرکون کھڑا ہے اور کون ظلم کررہا ہے؟ کون ملک کی حقیقی آزادی کے لیے کھڑا ہے۔

پٹرلیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پرعمران خان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ میں آکر پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا۔ میرا سوال ہے کہ کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایندھن کی قیمت میں اتنا بڑا اضافہ کیا گیا ہے؟ ان کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ بڑا مشکل فیصلہ تھا، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمعٰیل کے بیانات سن لیں جب ہماری حکومت عالمی دباؤ میں آکر قیمتیں بڑھا رہے تھے اس کے باوجود عوام کو بچانے کے لیے پاکستان میں ڈیزل و پیٹرول کی قیمت برصغیر میں سب سے کم رکھی تھی۔ جب قیمتیں بڑھتی گئیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے، ہم نے ٹیکس کو ہدف سے زیادہ جمع کیا، ہم نے وہاں سے اور دیگر جگہوں نے پیسہ نکال کر فیصلہ کیا کہ جون تک پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ نہیں کریں گے، ڈیزل و پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا اثر کے بجلی کی قیمتوں پر پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے،ان کی حکومت نے آئی ایم ایف کا دباؤ برداشت نہیں کیا۔ میں اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں باہر کی قوتیں چاہتی ہی نہیں ہیں کا پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ یہ چاہتی ہیں کہ ہم کمزور رہیں،6 ہفتے میں ان لوگوں نے جو ملک کے ساتھ کیا ہے وہ سب کےسامنے ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا عوام میں بددلی آئے گی، بدحالی ہوگی، جب مزید مہنگائی آئے گی تو عوام بغاوت کی طرف جائے گی۔ ہم نے سری لنکا میں بھی دیکھا ہے کہ 2 مہینے میں سری لنکا کہاں پہنچا ہے، امریکا کو ہمارے مفادات کا خیال ہوتا تو ان کو نظر نہیں آرہا ہے کہ ہم نے بڑی مشکل سے ملک میں چیزیں بہتر کی ہوئی تھیں۔

انکا کہنا تھا واشنگٹن سے جو مراسلہ آیا تھا اس میں کیا بات کی تھی اس میں کہا تھا کہ عمران خان روس کیوں گیا تھا؟ اس لیے اس کو ہٹاؤ اور اگر عمران خان کو نہ ہٹایا تو پاکستان کو نقصان ہوگا۔ ہٹا دیا تو معاف کر دیا جائے گا،روس کا دورہ عسکری قیادت، وزارت خارجہ سمیت دیگر کی مشاورت سے کیا تھا۔ میرا مقصد روس سے 30 فیصد کم قیمت پر تیل خریدنا تھا جیسا کہ بھارت خرید رہا ہے۔ اگر ہم 30 فیصد کم قیمت پر تیل خریدتے تو عوام پر بوجھ کم کرسکتے تھے بھارت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی کیونکہ وہ روس سے تیل خرید رہے ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ بھارت آزاد قوم ہے انہیں اجازت ہے کہ وہ روس سے دفاعی آلات اور تیل خریدیں، پاکستان کو کیوں اجازت نہیں ہے؟ اور اتنا غصہ کیوں کہ عمران خان چلا گیا اور روس سے ڈیل کررہا ہے، یہ غلامی کی قیمت ہے کہ ان میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ کہیں کہ پاکستان میں 5 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جبکہ 5 کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے قریب ہیں اور مہنگائی کا ایک جھٹکا لگنے کے صورت میں وہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے،بھارت نے واضح طور پر کہا کہ ہمارے ملک میں غربت ہے اور ہم لوگوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ لیکن یہ بات ہم کیوں نہیں کہہ سکتے؟ میری جنگ اس امپورٹڈ حکومت سے یہ ہے کہ میں چوروں کی غلامی نہیں کرسکتا جو امریکا کی غلامی کرکے ہر بات مانیں۔ آئی ایم ایف کو امریکا کنٹرول کرتا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا شہباز شریف کہتا ہےکہ ہم بھکاری ہیں اس لیے ہمیں غلامی کرنی پڑتی ہے۔ جس طرح آپ جارہے ہیں ہم ہمیشہ بھکاری ہی رہیں گے، ساری قوم حقیقی آزادی کے لیے تیاری کرے اور ہم سپریم کورٹ سے تحفظ چاہتے ہیں جو کہ ہمارا حق ہے اگر انہوں نے وہی حرکتیں کیں جو اس بار کی تھیں تو پھر یہ ذمہ دار ہوں گے جس طرف یہ ملک جائے گا، تیاری کا مطلب یہ ہے کہ اس بار لوگ گھروں میں نہیں پکڑے جائیں گے، پنجاب کے تمام رہنماؤں کے گھروں پر ریڈز ہوئیں، ان کو تو گھروں سے نکلنے ہی نہیں دیا۔ لوگ غلط فہمی میں پڑ گئے تھے کہ ہمارا حق ہے اور اس میں مداخلت نہیں ہوگی، ہم مسلمان صلح حدیبیہ کا سوچتے ہیں وہ ایک حکمت تھی سب نے کہا کہ جانا چاہیے اس وقت نبی ﷺ نے بڑا تصویر دیکھ کر فیصلہ کیا۔ پھر وقت نے ثابت کیا۔ ہماری بڑی تصویر یہ ہے کہ پاکستان میں امن قائم رہے ۔

Related Articles

Back to top button