عمران کا فوج مخالف بیانیہ پنجاب حکومت ڈبونے لگا


جوں جوں عمران خان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے میں شدت آتی جارہی ہے توں توں پنجاب میں پرویز الٰہی حکومت کے خاتمے کی خبروں میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی بارہا میڈیا کو بتا چکے ہیں کہ وہ عمران کو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن اب تک انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ عمران کی جانب سے چکوال جلسے میں مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کو کھلی دھمکیاں دینے اور اپنے فالورز کو فوج کے خلاف اکسانے کے بعد چوہدری پرویز الٰہی شدید مشکل میں آ چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران نے اپنا لہجہ نہ بدلا تو انکی نا اہلی تو یقینی ہے لیکن اسکے بعد پنجاب حکومت کا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا۔ پرویز الٰہی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز کی چھٹی کروانے کے لیے نہ صرف فوج کے ایک مخصوص دھڑے نے بلکہ عدالتی بڑوں نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا، لیکن عمران کی جانب سے فوج کے خلاف کھلی جنگ کے اعلان کے بعد اگر پنجاب حکومت گرانے کی کوشش ہوئی تو اسے بچانے کے لیے اب کوئی آگے نہیں آئے گا۔

یاد رہے کہ چند ہفتوں سے عمران خان اپنے جلسوں میں کہتے پھر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت گرانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں اور اس حوالے سے ‘مسٹر ایکس’ اور ‘مسٹر وائے’ متحرک ہیں۔ عمران کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہو رہا ہے جو تحریکِ انصاف کی طاقت کو کم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن پرویز الٰہی کے قریبی ساتھی سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی حکومت گرائی گئی تو اس کی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوگی جو جان بوجھ کر اسٹیبلشمنٹ سے پنگے کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف بھی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت گرانے کے لئے متحرک ہے۔ لیگی رہنما رانا مشہود اور عطااللہ تارڑ بھی کہہ چکے ہیں کہ پرویز الٰہی حکومت اب چند روز کی مہمان ہے

سینیئر صحافی نجم سیٹھی کا دعویٰ ہے کہ ایک ‘پنڈی پلان’ معرضِ وجود میں آ چکا ہے جس کے تحت پنجاب میں جلد ن لیگ کی حکومت قائم کر دی جائے گی جب کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت قائم رکھے گی جس کے بعد تمام صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کو بیک وقت تحلیل کرنے کے لئے راہ ہموار ہو جائے گی اوراکتوبر میں ملک الیکشن کی طرف چل پڑے گا۔ تاہم باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی کے پنڈی پلان کو اگر صرف پنجاب حکومت گرانے تک محدود رکھا جائے تو بہتر ہوگا چونکہ مستقبل قریب میں نئے انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔ سیٹھی کا پنڈی پلان بظاہر شہباز حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے تھا لیکن ا ب ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد پرویز الٰہی حکومت کا خاتمہ ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ نہ صرف چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھی قاف لیگ کے اراکین اسمبلی وزارتیں نہ ملنے کی وجہ سے ان سے نالاں ہیں بلکہ تحریکِ انصاف کے صوبائی اراکین بھی انتہائی ناراض ہیں۔ ناراض اراکین چند روز پہلے پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ہوئے اجلاس میں پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے اپنے تحفظات رکھ چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یوتھیے ارکان پنجاب اسمبلی اجلاس میں پرویز الٰہیٰ کے خلاف پھٹ پڑے، اور شکایات و تحفظات کا انبار لگا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان پنجاب میں لاوارث ہیں، جب کہ ق لیگ کے کونسلر سطح کے لوگ مشیر بنا لیے گئے ہیں۔ ارکان نے عمران خان سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہی نہیں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، سب خوار ہو گئے ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ کس کے پاس جائیں۔ تاہم، عمران خان نے ان کو صبر کا مشورہ دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کو اپنا وجود منوانے کےلیے کام کرنا ہوگا۔ عمران نے کہا کہ ہمیں مجبوراً حکومت ق لیگ کو دینا پڑی، لیکن ہم نے اسلم اقبال کو سینئر وزیر لگا دیا ہے، وہ معاملات ٹھیک کر لیں گے۔

یاد رہے کہ اجلاس سے پی ٹی آئی کے 25 ناراض ارکان اسمبلی غیر حاضر تھے۔پنجاب میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد 176 ہے، جب کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 150 ارکان ہی شریک ہوئے، جس پر عمران خان نے شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ کہا جاتا ہے کہ 25 ارکان کی غیر حاضری نے پنجاب حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ 25 ارکان کہاں تھے اور ان کی غیر حاضری کی وجہ کیا تھی، اس پر متضاد اطلاعات آ رہی ہیں لیکن اسی دوران ایک نئی خبر جس نے پنجاب کے مستقبل کے حوالے سے متجسس پنڈتوں کی خبر اپنی طرف مبذول کروا لی ہے وہ چند روز قبل لاہور میں ہونے والی ایک ملاقات ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ ملاقات سابق گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر خان ترین کے درمیان ہوئی جس میں ماضی کے گلے شکوے بھلا کر مستقبل میں مل کر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے متعدد ارکان ایک بار پھر جہانگیر ترین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

البتہ یہ اب بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ سب ہو کیسے پائے گا۔ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب میں وزیر اعلیٰ ہیں۔ اگر تحریکِ انصاف کے اپنے 25 ارکان اپنے مستقبل کا فیصلہ پی ٹی آئی سے ہٹ کر کرنا چاہ رہے ہیں تو پرویز الٰہی کے حوالے سے کوئی بھی انتہائی فیصلہ لینے کی قوت پارٹی میں کم ہوتی ہے۔ ن لیگ کے پاس پرویز الٰہی کو ہٹانے کے لئے تحریکِ عدم اعتماد کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں ہے اور اس میں بھی پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ نہیں دیا جا سکتا۔ یعنی اس کی کامیابی ناممکن ہے جب تک کہ خود ق لیگی ارکان پرویز الٰہی کے خلاف بغاوت نہ کر دیں کیونکہ باوجود اس امر کے کہ سپریم کورٹ اپنے پنجاب ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس کے فیصلے میں یہ عجیب و غریب فیصلہ دے چکی ہے کہ ارکانِ پارلیمنٹ پارلیمانی لیڈر کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں گے، یہ طاقت اب بھی پارٹی صدر کے پاس ہی ہے کہ وہ منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کروانے کے لئے معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر جائے یا نہیں۔ ایسی صورت میں ق لیگ کے اپنے 10 ارکان میں سے اکثریت اگر پرویز الٰہی کا ساتھ چھوڑ کر ن لیگ کی اتحادی بن جائے تو پنجاب میں کسی اپ سیٹ کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ پرویز الٰہی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے قاف لیگی اراکین اسمبلی ان سے ناراض ہیں چونکہ ان سے وزارتوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن عمران خان نے پرویز الٰہی کو صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ دس سیٹوں کے عوض انکو وزارت اعلیٰ مل چکی ہے اور اب انہیں مزید کوئی وزارت نہیں ملے گا۔ ایسے میں اگر قاف لیگ کے اراکین اسمبلی واپس چوہدری شجاعت کے پاس چلے جاتے ہیں تو پرویز الٰہی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔

Related Articles

Back to top button