وفاق نے سندھ پولیس کے 2 ہزار سپاہی واپس کیوں بھجوائے


عمران خان کی جانب سے منگل کو لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کے اعلان کے باوجود وفاقی حکومت نے سندھ پولیس کے ان 2 ہزار سے زائد ملازمین کو واپس ان کے صوبے بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے جنہیں عمران کا مارچ روکنے کے لیے کچھ ہفتے پہلے وفاقی دارالحکومت کی حفاظت کے لیے بلوایا گیا تھا۔حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب عمران خان کے لانگ مارچ سے انہیں وہ خطرہ محسوس نہیں ہو رہا جو پہلے تھا کیوں کہ اب خان صاحب خود اس مارچ کا حصہ نہیں ہیں اور ویڈیو کانفرنس سے جلسوں سے خطاب کیا کریں گے۔ تاہم یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ دو ہزار پولیس والوں کو وفاقی دارالحکومت میں ٹھہرانے کا خرچہ اب ناقابل برداشت ہو گیا تھا۔

یاد رہے کہ ان پولیس اہلکاروں کو سندھ حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اسلام آباد میں لانگ مارچ کی کال کے بعد شہر میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کی طرف سے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے سندھ کی صوبائی حکومت سے چھ ہزار پولیس اہلکاروں کو تحریک انصاف کے ممکنہ لانگ مارچ کو روکنے کے لیے اسلام آباد بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی تاہم صوبائی حکومت کی طرف سے صرف دو ہزار پولیس اہلکاروں کو اسلام آباد بھیجا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق سندھ پولیس کے یہ اہلکار گذشتہ تین ہفتے سے اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر رہے۔ وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے لانگ مارچ روکنے سے متعلق اقدامات کرنے کے لیے اسلام آباد پولیس کے حکام کو 14 کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ فراہم کی گئی تھی۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق سندھ پولیس کی طرف سے جو نفری بھیجی گئی تھی اس میں ایک اہلکار پر روزانہ ایک ہزار سے لیکر بارہ سو روپے کا خرچہ آ رہا ہے اور یہ رقم وزارت داخلہ کی طرف سے اسلام آباد پولیس کو دی جانے والی خصوصی گرانٹ سے ہی خرچ کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت کی طرف سے بھی اسلام آباد آنے والے ان پولیس اہلکاروں کو ٹی اے ڈی اے دیا جا رہا ہے۔اسلام آباد کی تاریخ میں ایسے مواقع بہت کم آئے ہیں جس میں دارالحکومت میں امن و امان کی خاطر سندھ سے پولیس منگوائی گئی ہو۔

اس معاملے میں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کسی لانگ ماچ یا احتجاجی مظاہرے کو روکنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے جو گرانٹ دی جاتی ہے اس کی جانچ پڑتال نہ ہونے کے برابر ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے تحریک انصاف کی حکومت میں جو لانگ مارچ کیا گیا تھا اس سے متعلق امن اومان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد پولیس کے جو اخراجات آئے تھے وہ پانچ کروڑ سے زائد تھے اور اس سے متعلق جو بل وزارت داخلہ کو بھیجا گیا تھا اس میں صرف سٹیشنری کا بل پندرہ لاکھ روپے تھا۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں جتنے بھی انٹرنیشنل ایونٹ کے علاوہ لانگ مارچ یا بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مظاہرے ہوئے ہیں ان کو روکنے کے لیے پنجاب کانسٹیبلری کے علاوہ صوبہ خیبر پختو نخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے پولیس کو طلب کیا جاتا رہا ہے۔ رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں، اس لیے کسی کو درخواست کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

پنجاب، صوبہ خیرپختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے وہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے پولیس کی نفری نہیں مل سکی۔ سندھ سے جو دو ہزار پولیس اہلکار اسلام آباد آئے تھے ان کی رہائش کے انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان میں سے کچھ اہلکاروں کو فیصل مسجد اور پاک سیکرٹریٹ میں واقع مسجد میں ٹھرایا گیا تھا جبکہ کچھ کو حاجی کیمپ اور ترنول کے قریب زیر تعمیر نجی ہاوسنگ سوسایٹیز میں ان کی عارضی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ سب انسپکٹر سے لے کر ایس پی رینک کے افسران کو پولیس لائن میں ٹھرایا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر ان پولیس اہلکاروں کے لیے رہائش کے جو انتظامات کیے گئے تھے اس کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بہت سے پولیس اہلکاروں کا نام لیے بغیر باتھ روم اور نہانے کے انتظامات مناسب نہ ہونے کا گلہ شکوہ بھی سوشل میڈیا پر نظر آتا رہا۔

ایسی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں جس میں سندھ پولیس کے اہلکار واپس جانے کے لیے اپنے افسران پر دباؤ ڈلوانے کے لیے سیاسی اثرو رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔سندھ پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ ضلع لاڑکانہ میں تعینات ہیں اور پہلی مرتبہ اپنے ڈسٹرکٹ سے باہر ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ کانسٹیبل ہیں اور اسلام آباد میں قیام کا ان کی زندگی کا بڑا تلخ تجربہ ہے کہ جہاں پر کھانے پینے کا اچھا انتظام ہے اور نہ ہی رہنے کی جگہ ہے۔انھوں نے کہا کہ انھیں دریاں بچھا کر زمین پر سونا پڑتا ہے اور کبھی تو دریاں بھی دستیاب نہیں ہوتیں تو انھیں گھاس پر ہی رات بسر کرنا پڑتی ہے۔ جس جگہ ٹھہرایا گیا ہے وہاں پر دس عارضی باتھ روم بنائے گئے تھے جبکہ پولیس اہلکاروں کی نفری پانچ سو سے زیادہ تھی اور یہ انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے آٹھ ہزار کے قریب پولیس ،رینجرز اور ایف سی کے اہلکار اسلام آباد میں موجود ہیں۔لیکن ایف سی اور رینجرز کے اہلکار کتنے عرصے تک اسلام آباد میں رہیں گے اس بارے میں نہ تو اسلام آباد پولیس اور نہ ہی وزارت داخلہ کے حکام کوئی حتمی جواب دے پائے ہیں۔

Related Articles

Back to top button