تاریخ ساز گوربی بھی مر گیا

تحریر: وسعت اللہ خان، بشکریہ : رونامہ ایکسپریس

سیلابی آفت اتنی بڑی ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی بجا طور پر دیگر عالمی خبروں کے بارے میں سوچنے کا ہوش نہیں ۔انھی میں سے ایک واقعہ تیس اگست کو سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف کی وفات ہے۔

گورباچوف کی متنازعہ پالیسیوں کے نتیجے میں سب سے بڑی کیمونسٹ سلطنت کا خاتمہ۔ اس بارے میں بحث بہت عرصے جاری رہے گی مگر یہ طے ہے کہ بیسویں صدی کے کلیدی رہنماؤں کی گیلری سے گورباچوف کی تصویر ہٹانا ممکن نہیں۔

ان کی وفات پر عالمی ذرایع ابلاغ میں کئی مضامین نگاہ سے گذرے۔انھی میں سے ایک مضمون الجزیرہ کی ویب سائٹ پر صحافی منصور میرولیف نے بھی لکھا۔ منصور سابق سوویت ازبکستان کے شہری ہیں۔انھوں نے گورباچوف کے دور میں ہوش سنبھالا۔ شاید آپ کو بھی ان کا تجزیہ مختلف لگے۔

’’کہنہ سوویت نظام کی مرمت کے لیے گورباچوف کی اصلاحات ( پریسترائیکا ) کے وقت میں دس برس کا تھا۔ان اصلاحات کے دوران جب سوویت یونین ٹوٹا تو میں بھی گورباچوف کو برا بھلا کہنے والی اس نسل کا حصہ تھا جس کی پالیسیوں نے ہماری امیدیں اور میرے والدین کا روزگار اور جمع پونجی چھین لی۔ مغرب میں گورباچوف کو گوربی کہہ کے پکارا جاتا تھا جب کہ میرے ہم عمر اسے گورباچ ( کبڑا ) کہتے تھے۔

یہ سمجھنے میں مجھے کئی برس لگے کہ اس توڑ پھوڑ کے نتیجے میں مجھ سمیت سوویت ریاستوں کے تیس کروڑ لوگوں کے دماغ کا دہی بنانے والے مسلسل بور پروپیگنڈے سے نجات ملی اور آنے جانے ، پڑھنے لکھنے اور عقیدے کے انتخاب کی آزادی میسر آئی۔ پھر یہ احساس بھی ہونے لگا کہ طشتری میں رکھی آزادی کتنی قلیل اور ناپائیدار ہوتی ہے۔حقیقی آزادی کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔جیسے یوکرین والے لڑ رہے ہیں،جب کہ عام روسی خواہش کے باوجود خوفزدہ یا وقت ٹالتے نظر آ رہے ہیں۔

جب انیس سو پچاسی میں گوربی نے اقتدار سنبھالا تو میں تاشقند کے ایک پرائمری اسکول کی پانچویں جماعت میں تھا اور کمرے کے ایک کونے میں موجود لینن بک کارنر کا انچارج بھی تھا۔شیلف پر دھری درجن بھر کتابوں میں لکھا تھا کہ لینن کا بچپن کیسا تھا اور وہ کیوں ایک ایسی ریاست کے قیام کے خواب دیکھتے تھے جو انسانی مساوات کے اصول پر استوار ہو اور اس منزل کا حصول صرف کیمونزم کو مکمل طور پر اپنانے سے ہی ممکن ہے۔

مجھے اس عمر میں وہم لاحق ہو گیا کہ کسی بھی دن سرمایہ داروں کا سرخیل امریکا ہم پر حملہ کر دے گا اور ایک ایٹم بم میرے پیارے شہر تاشقند کے ایٹمی تحقیقی مرکز پر بھی ضرور گرے گا اور پھر ہم سب مرجائیں گے۔

میرے ہم عمروں کو یہ تو معلوم تھا کہ خدا کا وجود نہیں۔مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ پھر ریاست لینن کو خدا کی طرح کیوں سمجھتی ہے اور ہر تقریر اور پالیسی میں اس کا حوالہ کیوں ضروری ہوتا ہے،حالانکہ اب تو ہم ایک ترقی یافتہ سوشلسٹ ریاست میں جی رہے ہیں اور کیمونزم کی حتمی منزل بس چند عشرے دور ہے۔

بے چاری پولیس!

میرے اردگرد تاتاری ، آرمینیائی ، یوکرینی ، وولگا جرمن اور کورین بچے بھی تھے۔ کہیں بعد میں جا کے پتہ چلا کہ ان بچوں کے آباؤ اجداد کو نازیوں اور جاپانیوں سے ساز باز کے الزام میں آبائی علاقوں سے کھدیڑ کے ازبک زمین پر بسایا گیا۔البتہ ہم سب بچے روسی زبان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تاکہ بڑے ہو کر ایک عظیم قومی مشین کا کل پرزہ بن سکیں۔

مگر ہم بچوں کے والدین ساکت پانی میں کنکر پھینکنے والے گوربی کی نقلیں اتارتے تھے۔اس کے دہقانی لہجے اور ماتھے پر نمایاں سرخ نشان کا مذاق اڑاتے۔ اس کی تقاریر بھی ان کی سمجھ سے بالا تھیں۔ حالانکہ گوربی کی تجویز کردہ اصلاحات میں کچھ بھی انتہاپسندانہ نہیں تھا۔وہ بھی اپنی تقاریر میں لینن کو خراجِ عقیدت پیش کرنا نہیں بھولتا تھا۔بس اس نظام کو نئے تقاضوں کے مطابق مستحکم کرنے کے لیے تھوڑی سی اوور ہالنگ کرنا چاہتا تھا۔

لیکن تبدیلی سے جنم لینے والے تضادات پر گوربی کا بھی کنٹرول نہ رہا۔بڑھتے شور میں خود اس کی آواز ڈوبتی چلی گئی۔دیگ پر سے ڈھکن اٹھانے کے نتیجے میں کاکیشیائی و وسطی ایشیائی ریاستوں میں ابھرنے والی نسلی کشیدگی دبانے کے لیے طاقت استعمال کرنے کی نیم دلانہ کوشش کی گئی اور بالٹک ریاستوں میں آزادی کا نعرہ دبانے کے لیے ٹینک تک بھیجے گئے۔ مگر یہ اقدامات خود گوربی کے کھلے پن اور شفافیت کے نظریے کی ضد تھے لہٰذا کنفیوژن اور گوربی کی ذات پر عمومی عدم اعتماد بڑھتا چلا گیا۔

کلاسیفائیڈ دستاویزات سے پتہ چلا کہ سوویت مندر مسلسل پروپیگنڈے اور نظریاتی مخالفین کی لاکھوں جلا وطن منجمد لاشوں پر کھڑا کیا گیا تھا۔میرے دادا جو مغربی سائبیریا کے ایک مذہبی عالم تھے اور میرے نانا جو وسطی روس میں رہتے تھے اور جن کا نسب اہلِ بیت سے جا ملتا ہے۔وہ دونوں بھی انیس سو تیس کے عشرے میں اسٹالن دور میں مرنے والے لاکھوں لوگوں میں شامل تھے۔پھر مجھے پتہ چلا کہ ہمارے خاندان کو بھی وطن بدر کر کے ازبکستان میں جبراً بسایا گیا۔اس سچائی نے مجھے ہلا کے رکھ دیا اور سوچتا رہا کہ میرا اصل کیا ہے اور کہاں ہے ؟

مگر جس عمر میں سوویت یونین بکھرا۔اس لڑکپن میں ہمیں بس اتنی تبدیلی محسوس ہوئی کہ سیاہ و سفید کے علاوہ بھی بہت سے رنگ ہوتے ہیں۔ دنیا صرف بالٹک کی بندرگاہ کالینن گراڈ سے جزیرہ نما کماچٹکا کے درمیان کی لمبائی اور تالین اور تاشقند کے درمیان کی چوڑائی کا نام نہیں بلکہ اس جغرافیے کے باہر بھی بہت بڑی دنیا ہے جس کی موسیقی بھی کانوں کو بھلی لگتی ہے۔اب ہم لڑکے بالے جارج آرویل کا ناول ’’ انیس سو چوراسی‘‘ ، سولزنسٹن کا ناول ’’کولاگ آرچی پیلاگو‘‘ اور ولادی میر نوبوکوف کی ’’ لولیتا ‘‘ بھی بن داس پڑھ سکتے ہیں۔ خوبرو چہروں سے مزین چکنے رسالے بھی خرید سکتے ہیں اور مرضی کا چھوٹا موٹا کاروبار جما کے والدین کی تنخواہ کے مقابلے میں کئی گنا کما سکتے ہیں۔

پھر ایسا ہوا کہ بے لگام معیشت میں کالے دھن کی شمولیت کے سبب کساد بازاری نے سب کو لپیٹ میں لیا۔جوہری تحقیقی مرکز میں والدہ کی ملازمت ختم ہو گئی اور انھوں نے گذارے کے لیے اسپورٹس ہیٹ سینے شروع کر دیے۔میں نے ہر ویک اینڈ پر لگنے والی کھلی مارکیٹ میں جوگرز ، جینز اور جوتے فٹ پاتھ پر رکھ لیے۔پہلی بار رشوت لے کے ادھر ادھر دیکھنے والے پولیس والے کو بھی دیکھا۔

جب اٹھارہ اگست انیس سو اکیانوے کو میں ایک دکان کے باہر صفائی کا اجرتی کام کر رہا تھا۔ ایک دوست بھاگا بھاگا آیا اور بتایا کہ گوربی کو فوج نے گرفتار کر لیا ہے۔ میرے منہ سے نکلا ’’اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا ۔‘‘

کچھ ماہ بعد سوویت یونین ہی ہلنے لگا مگر پندرہ میں سے نو ریاستوں نے سوویت یونین برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔البتہ نئے روسی رہنما بورس یالسٹن نے روس کا ناتا سابق سلطنت سے توڑ کے مکمل آزادی کا اعلان کردیا اور پھر گورباچوف نے اپنے ہی دستخطوں سے سوویت صدر کا عہدہ کالعدم قرار دے دیا۔

ایک وسیع و عریض مادرِ وطن راتوں رات پندرہ نئے ممالک میں بدل گئی جو نہیں جانتے تھے کہ یہاں سے کہاں جائیں کیا کریں۔چنانچہ چوروں اور ڈاکوؤں کی بن آئی اور مافیاؤں نے ریاستی فیصلہ سازی کو تیزی سے گرفت میں لینا شروع کر دیا۔ اس سب کا ذمے دار کون تھا؟ گوربی؟

دو ہزار تین میں مجھے کیلیفورنیا کی سان ہوزے یونیورسٹی سے صحافتی تعلیم کا وظیفہ مل گیا۔ واپسی پر میں ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی سے منسلک ہو گیا۔کچھ ہی عرصے بعد مجھے ماسکو منتقل ہونا پڑا کیونکہ ازبکستان میں اسلام کریموف نے اسٹالن کی طرز پر مخالفین کا قلع قمع شروع کر دیا تھا۔

دو ہزار سات سے تیرہ کے درمیان گوربی سے ماسکو میں ان کے گھر پر کئی بار ملا۔گوربی کا یہ خیال آخر تک قائم رہا کہ اگر سوویت یونین نہ ٹوٹتا تو آج ترقی کے اعتبار سے امریکا نہیں تو چین کے ہم پلہ ضرور ہوتا۔

میری نو برس کی بیٹی یوکرین کے بچوں کی تصویریں دیکھ کے اکثر بے چین ہو جاتی ہے۔ لیکن اسے میرے برعکس کسی جوہری جنگ کے چھڑ جانے کا کوئی خوف نہیں۔اب تک وہ سات ممالک دیکھ چکی ہے اور تین سمندروں میں غوطہ لگا چکی ہے۔جب کہ مجھے اٹھائیس برس کی عمر میں ملک سے پہلی بار نکلنا نصیب ہوا تھا۔

آج میں نے اسے بتایا کہ بیٹی ایک بہت بڑا آدمی مر گیا۔اس نے نام پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ وہ اپنے نئے جوتوں کو دیکھنے میں مگن تھی جن پر بلی کی شبیہہ بنی ہوئی ہے ۔‘‘

Related Articles

Back to top button