عمران کو دہشتگردی کے مقدمہ میں شامل تفتیش ہونے کا حکم

اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے راولپنڈی کیخاتون ایڈیشنل جج کودھمکیاں دینے کے مقدمے میں پولیس کو عمران خان کے خلاف چالان جمع کرانے سے روکتے ہوئے عمران خان کو پولیس کے ساتھ شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز پرمشتمل دورکنی ڈویژن بینچ نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق توہین آمیز زبان کے استعمال پر عمران خان کے خلاف درج دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کے لیے دائر کردہ درخواست پرسماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان صفدر، فیصل چوہدری عدالت کے سامنے پیش ہوئے جب کہ حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون پیش ہوئے۔

عدالت عالیہ نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے متفرق درخواست کیا دائر کی ہے؟ پھرعدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا اس میں چالان رپورٹ جمع ہوئی ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اس کیس میں تفتیش جوائن نہیں کی، عدالت نے کہا کہ کیا تفتیشی افسر گئے ہیں؟ تو ایڈووکیٹ جنرل بولے کہ تفتیشی افسر کو وہاں جانے کی اجازت ہی نہیں دے رہے، تفتیشی افسر نے نوٹس بھی دیا لیکن عمران خان نے تفتیش جوائن نہیں کی۔
سربراہ بینچ نے کہا اگر کوئی وہاں جانے کی اجازت نہیں دیتا تو پھر قانون کو اپنا رستہ خود بنانا ہے، اگر تفتیشی افسر کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتا تو آئندہ ہفتے رپورٹ دیں، اگر انہوں نے تعاون نہ کیا تو کورٹ اس کیس کو Intertain نہیں کرے گی، تفتیش افسر آئندہ سماعت پر بتائے کہ دہشت گردی کی دفعہ لگتی ہے یا نہیں۔

عدالت عالیہ نے عمران خان کو پولیس کے ساتھ شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا اور کہا کہ اسلام آباد پولیس عمران خان کے خلاف تفتیش کرکے رپورٹ پیش کرے۔ عدالت نے ہدایت دی اور کہا کہ ایک قانون ہے اس پر آپ کو عمل کرنا ہے جس پر عمران خان کے وکیل نے شامل تفتیش ہونے کی یقین دہانی کرا دی۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے، عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات سے متعلقہ ٹرائل کورٹ نے بھی ان کو کہا، میں دہشت گردی کے لیبل کے ساتھ آپ کے سامنے کھڑا ہوں، انہوں نے اس کیس میں نئی دفعات بھی شامل کردیں ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس ریاست کے نظام پر ہمیں اعتماد رکھنا ہوگا، رول آف لا تب ہوگا جب اس پر عمل درآمد ہوگا۔ بعدازاں چیف جسٹس نے پولیس کو چالان جمع کرانے سے روک دیا۔ عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت دی کہ 173 کی رپورٹ آپ جمع نہیں کرائیں گے پہلے ایک رپورٹ اس عدالت میں جمع کرائیں، تفتیش افسر پہلے اپنے اختیارات کا مناسب انداز میں استعمال کرے اور پھر رپورٹ دے۔

چیف جسٹس نے کہا تفتیشی افسر یونیفارم پہننے ہوئے ہیں ہم انہیں عزت نہیں دیں گے تو کون دے گا، اگر یہ عدالت ان کو عزت نہیں دے گی تو باہر بھی کوئی انہیں عزت نہیں دے گا، یہ عدالت اس قسم کے ایشوز تین سال سے ڈیل کر رہی ہے۔

دوران سماعت تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمے کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنی ہوئی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ایک تقریر ہے کیا تقریر کے بعد کوئی اٹیک تو نہیں ہوا یا کسی نے کوئی کال تو نہیں کی؟ اس سے جڑی اور بھی چیزیں ہیں جنہیں دیکھنا اور جاننا ضروری ہے۔

سربراہ بینچ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تفتیشی افسر کے لیے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، سسٹم پر ہر کسی کو اعتماد ہونا چاہئے، اگر غلط offence بنا ہے تو تفتیشی افسر اپنی تفتیش میں خود اسے ختم کر دے۔

قبل ازیں عمران خان نے اپنے خلاف درج مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرانے کے لیے ایک نئی درخواست دائر کردی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میرے خلاف درج دہشت گردی کی دفعات کا مقدمہ معطل کیا جائے، ہماری اخراج مقدمہ کی درخواست دائر ہونے کے بعد پولیس نے نئی دفعات شامل کرلیں، پولیس نے کار سرکار میں مداخلت، دھمکیاں اور توہین کی دفعات شامل کرلیں۔ رجسٹرار آفس نے عمران خان کی نئی درخواست پر اعتراض عائد کردیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سربراہی میں بینچ کچھ دیر بعد کیس کی سماعت کرے گا۔

Related Articles

Back to top button