کیا پاکستان میں کورونا وائرس کی انتہا آچکی ہے؟

پاکستان میں رواں ہفتے کے دوران کورونا کے نئے کیسز میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور 19 جون کو 6 ہزار چھ سو کیسز سامنے آنے کے بعد نئے کیسز کی تعداد تقریباً پانچ ہزار روزانہ سے کم ہی رہی۔
اس پر بعض حلقے اسے لاک ڈاؤن کی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور کچھ لوگ اسے پاکستان میں مستقل بہتری کی جانب قدم سمجھ رہے ہیں۔ تاہم اہم بات یہ بھی ہے کہ اسی دوران پاکستان میں کیے گئے کورونا کے روزانہ ٹیسٹوں میں بھی کمی آئی ہے اور عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں روزانہ کیے گئے کورونا کے ٹیسٹوں کی تعداد میں بھی 26 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
یاد رہے کہ 19 جون کو 31 ہزار6 سو سے زائد ٹیسٹ کیے گئے تھے اور کیسز کی تعداد 6 ہزار چھ سو رہی جبکہ اگلے دن 20 جون کو ملک بھر میں کورونا کے ہونے والے ٹیسٹوں میں تقریباً تین ہزار کی کمی ہوئی اور 28 ہزار 8 سو ٹیسٹ کیے گئے۔
اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نئے مریضوں کی تعداد 4 ہزار 9 سو 51 رہی یعنی نئے مریضوں کی تعداد میں بھی تقریباً ڈیڑھ ہزار کی کمی نظر آئی۔ اسی طرح 21 جون کو ٹیسٹوں کی تعداد پھر بڑھ کر 30 ہزار 500 ہوئی مگر کیسز کی تعداد بدستور کم رہی اور 4 ہزار چار 471 کیسز سامنے آئے۔ 22 جون کو ٹیسٹ صرف 24 ہزار 6 کیے گئے اور نئے کیسز کم ہو کر 3 ہزار 900 تک رہ گئے۔ 23 جون کو ہونے والے ٹیسٹ 23 ہزار 3 سو اور کیسز کی تعداد 3 ہزار 9 سو کے قریب رہی۔ 24 جون کو ٹیسٹوں کی تعداد 21 ہزار 8 سو 35 رہی جب کہ 4044 کیسز سامنے آئے۔ تاہم اس تمام عرصے کے دوران فی سو ٹیسٹوں میں مثبت آنے والے کیسز کی شرح اوسطاً 16 فیصد ہی رہی۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں ہر سو افراد کے ٹیسٹ کے دوران کورونا کے 16 مریض نکلتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے 18 جون کو عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں بھی یہ شرح 16 فیصد ہی تھی۔ تین ھفتے قبل یعنی 4 جون 2020 کی عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں پاکستان میں یہ شرح 14 فیصد تھی۔ ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی شرح کا مطلب ہے کہ آبادی میں وائرس اب زیادہ پھیل چکا ہے۔ چونکہ ملک بھر میں ٹیسٹوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اس لیے ہر صوبے کی حکومت اس کے مختلف جواز پیش کر رہی ہے۔ صوبہ سندھ میں ٹیسٹوں کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی جہاں روزانہ ٹیسٹوں کی تعداد 19 جون کو ساڑھے 13 ہزار تھی جو کہ کم ہو کر 25 جون کو صرف چھ ہزار چار سو رہ گئی۔
ترجمان محکمہ صحت سندھ عاطف ویگہو نے بتایا کہ ٹیسٹوں کی تعداد میں کمی کی ایک وجہ عملے کی کمی ہے جس کے باعث گھر گھر جا کر ٹیسٹ کرنے کا عمل معطل ہو گیا تھا۔ ‘کراچی ساؤتھ اور سینٹرل میں یہ عمل زیادہ متاثر ہوا تھا جہاں اب بحال ہوگیا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ جان بوجھ کر ٹیسٹوں کی تعداد کم کی گئی ہے۔’ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے کیسز کب تک چھپائے جا سکتے ہیں اور اس صورت میں کئی مریضوں کی حالت بگڑ بھی سکتی ہے اس لیے ایسا رسک لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تاہم اسلام آباد کے ڈسٹرک ہیلتھ آفیسز زعیم شاہ کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں ٹیسٹوں کی تعداد اتنی کم نہیں ہوئی ہے، تاہم بیماری کا پھیلاؤ تھوڑا کم ہوا ہے اور اس کی وجہ اسمارٹ لاک ڈاؤن ہے اور جو علاقے لاک ڈاؤن کے اندر ہیں وہاں نئے انفیکشن کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
پاکستان میں ماہرین اور سرکاری سطح پر کورونا وئرس کے کیسز کی انتہا کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے مئی اور جون میں وباء کی پیک تک پہنچنے کا کہا گیا تھا تاہم رواں ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب کے دوران جولائی اور اگست میں کیسز عروج پر پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
ہیلتھ سروسز اکیڈمی میں وبائی امراض کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد خان نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک تحقیق کی ہے، اس تحقیق کے مطابق پاکستان 21 جون سے کورونا کی انتہا میں داخل ہو چکا ہے اور انتہا کا یہ عمل اگست کے وسط تک جاری رہے گا جس میں گراف سیدھا یا فلیٹ رہے گا جس کے بعد کیسز میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ ڈاکٹر اعجاز کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکہ میں ریسرچ شائع کرنے کےلیے بھیجی ہے لیکن ابھی اس کا جائزہ باقی ہے۔ ان کی تحقیق میں ایس ای آئی آر ماڈل استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت اس وقت ملک کورونا کی پیک سے گزر رہا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے ماڈل میں دنیا بھر میں مفروضے قائم کیے جاتے ہیں۔اس کی پیش گوئی کا دارومدار اعداد و شمار کی درستی اور حکومتی اقدامات پر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اسمارٹ لاک ڈاؤن کرے، سماجی فاصلے پر سو فیصد عمل ہو اور ہر شخص ماسک پہنے تو ان کے ماڈل کے مطابق کورونا کے کیسز میں 30 فیصد تک کمی آ سکتی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومتی حکمت عملی یک رخی نہیں بلکہ ہمہ جہت ہونا بہت ضروری ہے۔
اس حوالے سے دیگر ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ گلوبل ہیلتھ اسٹریٹیجسٹس اینڈ ایمپلیمنٹرز کے چیف ایگزیکٹو اور عالمی ادارہ صحت کے ساتھ وبائی امراض کے حوالے سے کام کرنے والے ڈاکٹر رانا فواد اصغر نے کچھ دن قبل کہنا تھا کہ ‘یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان میں وباء جولائی یا اگست میں اپنی انتہا کو پہنچے گی۔ ‘اس اندازے کےلیے ٹیسٹنگ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ لانے کی ضرورت ہے۔’ڈاکٹر رانا فواد اصغر کے مطابق ‘پاکستان میں کورونا کے 80 فیصد مریض ایسے ہیں جن میں کوئی علامات ہی ظاہر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ان میں وائرس موجود ہے اس لیے ملک میں کتنے مریض ہیں اور کب تک کیسز انتہا کو پہنچیں گے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button