آصف زرداری نے خود کو مرد حر کیسے ثابت کیا؟


کرپشن کے جھوٹے مقدمات پر چودہ برس کی طویل قید کاٹ کر مرد حر کا خطاب پانے والے سابق صدر آصف علی زرداری عمران خان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ایک بار پھر جھوٹے مقدمات کی زد میں ہیں جس کا واحد مقصد انہیں اور ان کی پاکستان پیپلز پارٹی کو ریاستی دباؤ میں رکھنا ہے لیکن ایک برس سے زائد کی تحقیقات اور عدالتی پیشیوں کے باوجود ابھی تک نیب نیازی گٹھ جوڑ انکے خلاف “میگا منی لانڈرنگ سکینڈل” میں سے کچھ نہیں نکال سکا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آصف زرداری کے خلاف جھوٹے الزامات کی بنیاد پر ان کا میڈیا ٹرائل مسلسل جاری ہے۔
آصف زرداری کیخلاف وہ سیاسی مقدمات جو نوے کی دہائی میں بدماشیہ اور ن لیگ نے مل کر بنائے، انکا جواب تو نواز شریف کی ‘معذرت’، چیئرمین احتساب کمیشن سیف الرحمٰن کے انکے ‘پاوں پڑنے’ اور بعد ازاں عدالتوں سے ‘بریت’ کی صورت میں موجود ہے۔ جہاں تک موجودہ کیسز کا سوال ہے تو سابق صدر پر امید ہیں کہ آزاد عدلیہ ایک بار پھر ان کے حق میں فیصلہ دے گی۔
تین دہائیوں سے مقتدر حلقوں، اور سیاسی مخالفین کا فرض اولین آصف زرداری کی کردار کشی ہو رہی ہے۔ بہتان، دشنام، تعصب، نفرت و انتقام کا ہر حربہ سہنے اور اپنے نظریاتی مخالف سے ’’مردِ حُر‘‘ کی سند حاصل کر لینے کے باوجود مخالفین کے کلیجے ٹھنڈے نہیں ہو رہے اور آج بھی آصف زرداری کو مطعون کرنا ان کا مقصد حیات ہے۔ خیر سے مردحُر بھی یہی داغ سجا کر صدر، وزیراعظم ہائوس سے زندان تک جانے کی رسم بڑی سج دھج سے بار بار ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے ہر مرتبہ جیل اس بہادری سے کاٹی کہ انکے نظریاتی مخالف مجید نظامی نے انھیں مرد حر کا خطاب دے دیا۔
2008 میں بی بی کی شہادت کے بعد پاکستان کو بچانے کے لیے پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے زرداری کا کہنا ہے کہ مرد کی یہ شان نہیں کہ وہ تکلیف میں اف تک کہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مخالفین کے جھوٹے الزامات کی وجہ سے انکے گناہ جھڑتے ہیں۔ یہ ایک مزاحمتی سیاست دان کا نقطۂ نظر ہے جو مفاہمت پر یقین رکھتا ہے اور سیاست عملیت پسندی کی کرتا ہے۔ وہ جب بھی مشکل میں آتے ہیں تو کہیں چھپا ہوا مزاحمتی اندر سے سر نکال لیتا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے شریک حیات بننے سے پہلے زرداری قبیلے کا یہ سردار آسودگی کی زندگی گزار رہا تھا مگر بینظیر بھٹو سے ناطہ جوڑنا آصف زرداری کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا، وہ دن اور آج کا دن آصف زرداری ’’بھٹو دشمن قوتوں‘‘ کے غیظ و غضب کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ طاقتور حلقے سمجھتے تھے کہ بھٹو کی نہتی بیٹی ہمیں کیسے شکست دے سکتی ہے لہٰذا اسے فی الوقت جان کی امان دی جائے اور اس کی اور اس کے اقربا کی کردار کشی کر کے بھٹو ازم کو ختم کر دیا جائے۔ لہٰذا سب سے پہلے بھٹو کی بیٹی کو اس کے باپ کے حوالوں سے گنہگار گردانا گیا۔ بھٹو کو کبھی غدار، کبھی کافر، کبھی قاتل کہا گیا مگر جب تاریخ نے بھٹو کے قتل کو جوڈیشل مرڈر قرار دے کر انہیں دنیا کے عظیم ترین انسانوں کے قبیل میں شامل کرتے ہوئے امر کر دیا تو بھٹو کی بیٹی اس قابلِ فخر میراث کی وارث قرار پائی۔
بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ اقتدار میں آئیں تو کچھ عرصے بعد ہی ان کی حکومت کے خلاف سازشیں شروع کر دی گئیں اور پھر ایک روز انہیں اقتدار سے رخصت کر دیا گیا اور آصف زرداری کو کرپشن کے جھوٹے الزامات پر جیل میں ڈال دیا گیا۔ لیکن پھر وہی الزام لگانے والا صدر غلام اسحاق خان مردِ حر کو جیل سے نکال کر اس سے وفاقی وزیر کا حلف لے کر یہ اعلان کرتا ہے کہ آصف زرداری بے گناہ تھا اور میرے الزامات جھوٹے۔ پھر وہ دن بھی آیا جب بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہو گئیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کو ان کا اقتدار کیسے ہضم ہو سکتا تھا۔ ایک مرتبہ پھر سازش ہوئی اور مرتضی بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت کے ایک ماہ بعد ہی صدر فاروق لغاری نے غداری کرتے ہوئے پیٹھ میں چھرا گھونپا اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ آصف علی زرداری کو دوبارہ زندان میں ڈال دیا گیا۔
وہ ایک مرتبہ پھر نام کے شریف جمہوری حکمرانوں کے آمرانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ جرات و بہادری اور غیرت سے کرتے ہیں۔ جھوٹے مقدمات کا مقابلہ کرنا اور آئین و قانون کے سامنے سر تسلیمِ خم کرنا آصف زرداری کی روایت رہی ہے، یہ ضمیر کا قیدی ایوان میں ہو یا پسِ زنداں، جرات کا استعارہ ہی رہا۔ سازشی حریف مکافاتِ عمل کا شکار ہوئے تو آصف زرداری نے ان کا استقبال پھولوں کے گلدستوں سے کیا، چنانچہ جھوٹے مقدمات بنانے والے تائب ہوئے اور فرمایا کہ سازش کرنے والے کوئی اور تھے اور ہمیں مہرہ بنایا گیا۔ زرداری تقریباً 12سال بے گناہ قید کاٹ کر پاکستان کی عدالتوں سے باعزت بری ہوئے تو تاریخ میں سرخرو ٹھہرے اور مخالفین کے منہ ہمیشہ کے لئے کالے ہوئے۔انہیں چوراہوں میں لٹکانے کے دعویدار ناکام و شرمندہ اور معافی کے طلبگار ہوئے، اور انہیں معافی دے دی گئی۔ یوں مرد حر نے اپنے غم اور تلخیاں بھول کر عوام کے غم بانٹنے کے لئے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کی اور مفاہمت کا راستہ اپنایا۔
انہیں اُمید تھی کہ اب آسانیاں آئیں گی اور ملک آگے بڑھے گا ۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کرلیا۔ دوسری طرف بھٹو کے نظریئے اور فلسفے کو ختم کرنے میں ناکام رہنے والے سازشیوں نے گھبرا کر بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ بے نظیر کو شہید کر دینے سے بھٹو کا نظریہ اور فلسفہ بھی ختم ہو جائے گا۔ تاہم ایسا نہ ہوسکا اور ان کی شہادت کے بعد ہر گھر سے بھٹو نکل آیا جس کے نتیجے میں مرد حر صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ آصف زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا اور بی بی کے فرزند کے ہمراہ بی بی کے مشن کی تکمیل کا عزم کیا۔ جمہوری سفر نئے سرے سے شروع ہوا۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین سے آمرانہ اقدامات اور شقوں کا خاتمہ ہوا۔ اختیارات مطلق العنان حاکم سے پارلیمان کو منتقل ہوئے، صوبوں کو شناخت اور خودمختاری ملی۔ تاریخ میں پہلی دفعہ اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہوا۔
اب ان جرائم پر صدر زرداری کو کیسے معاف کیا جا سکتا تھا؟ پہلے زرداری حکومت کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل لایا گیا پھر ان کے وزیراعظم کو نااہل کر دیا گیا۔ تاہم زرداری استقامت سے ڈٹے رہے اور اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کیے۔ لیکن اقتدار سے رخصتی کے سات برس بعد بھی آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کا ہدف ہیں۔ اہلِ ہوس مدعی و منصف بن کر زرداری پر کرپشن کے جھوٹے الزامات عائد کئے چلے جارہے ہیں تاکہ ان کو سیاسی طور پر مسلسل دباؤ میں رکھا جا سکے۔
اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے وزیر اعظم نےاقتدار میں آنے کے بعد سے آصف زرداری کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ تیز تر کر دیا گیا ہے۔ لیکن آصف زرداری کے وہی اندازِ جنون عشق ہیں۔ فرماتے ہیں ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘۔ آصف علی زرداری واقعی ایک عجیب شخصیت کے مالک ہیں؛ بہتان، الزام، نفرت، تعصب اور انتقام کا جواب وہ بصیرت، تدبر، محبت، برداشت، صلح جوئی اور روایتی مسکراہٹ سے ہی دیتے ہیں پھر سے وہی الزامات، عدالتیں، کٹہرے اور زندان اور وہی ضمیر کا قیدی آصف علی زرداری. کرپشن کے نئے پرانے سارے کیس اور یہ اخلاقی مقدمے جو بُوٹ چاٹ سیاستدانوں اور پارٹی غداروں سمیت آلہ کار صحافیوں نے آصف زرداری کے کردار پر لگائے ان سب کا فیصلہ زمین و آسمان دونوں پر ہونا باقی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button