ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہونے سے ہزاروں ملازمین بیروزگار ہو گے


بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سےکراچی میں ٹیکسٹائل انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے اور پیداواری لاگت بڑھنے اور آرڈز نہ ہونے کی وجہ سے فیکٹری مالکان نے یونٹ بند کر کے ہزاروں افراد کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافے سے انکی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔ چونکہ پاکستان کے مقابلے میں چین، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں سستا مال میسر ہے لہٰذا خریدار پاکستان کے بجائے دیگر مارکیٹوں سے سودے کر رہے ہیں۔ ایسے میں صنعتوں کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو سستے نرخوں پر یوٹیلیٹز فراہم نہیں کی گئی تو آنے والے دن مزید مشکل ہوں گے۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں بجلی اور گیس سمیت دیگر یوٹیلیٹز کی مد میں اضافے کی وجہ سے اشیا کی تیاری کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتیں کافی متاثرہ ہوئی ہیں۔ کراچی کے پانچ بڑھے صنعتی زونز میں تقریباً 30 سے زائد یونٹس بند ہوئے ہیں،اس وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کراچی میں کام کرنے والے چار بڑے یونٹس سے اب تک تقریباً 8500 سے زائد افراد کو فارغ کیا جا چکا ہے جبکہ دیگر یونٹس میں بھی چھانٹی جاری ہے۔ صدر ایوان صنعت و تجارت کراچی محمد ادریس نے اس بات کی تصدیق کی کہ کراچی میں ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو رہے ہیں اور وہاں کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ورکرز کو بھی فارغ کیا جا رہا ہے۔  

محمد ادریس نے بتایا کہ ’کراچی کی بیشتر صنتعوں میں تین شفٹوں کو دو شفٹ میں کر دیا گیا ہے۔ امریکہ یورپ سے کام نہیں مل رہا تو مشکلات ہو رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں خریدار پاکستان کو آرڈز دینے میں بھی احتیاط کر رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے مقررہ وقت پر مال کی فراہمی پر انہیں کچھ خدشات ہیں۔ اس کی اہم وجوہات ہر گزرتے دن کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی و گیس کا بحران ہے۔‘

کراچی میں کپڑے کے بروکر عثمان زاہد کا کہنا تھا اس وقت مارکیٹ کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ چار ماہ پہلے لومز کا ریٹ 50 پیسہ فی پک تھا، لیکن اب کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوم 38 پیسہ فی پک میں مل رہی ہے مگر گاہک موجود نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا ’سائیٹ کراچی میں جہاں سے سے مال تیار کرواتے ہیں اس فیکٹری مالک کا کہنا ہے گزشتہ ماہ گیس کا بل ڈیڑھ کروڑ کا تھا جو اس ماہ ڈھائی کروڑ ہو گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں پیدارواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے اور طے شدہ معاہدے کے مطابق مال فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘ ادریس کے مطابق ’گیس کا بحران شدید ہو گیا ہے۔ وقت پر گیس کا سودا نہیں کیا اب مہنگے داموں خریدنا پڑ رہا ہے۔ ہر چیز یوٹیلیٹز سے جڑی ہے۔ کام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔‘  انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو چلانے کے لیے سستے داموں بجلی اور گیس کی فراہمی ہوگی تو ہی آرڈرز وقت پر تیار ہو سکے گا اور ایکسپورٹ کیا جا سکے گا۔ چھ ماہ قبل ٹیکسٹائل انڈسڑی میں بہت تیزی تھی اور تقریباً تمام فیکٹریاں دو سے تین شفٹوں میں کام کر رہی تھیں، لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں چلنے والی صنعتوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ اگر اس صورتحال کو فوری کنٹرول نہیں کیا گیا تو بیروزگاری بڑھے گی اور عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل تر ہو جائے گا۔ 

Related Articles

Back to top button