ریپ مجرمان کو خصی کرنے کے طریقے پر کنفیوژن برقرار

https://www.youtube.com/watch?v=RaR4bZPLe0s&feature=youtu.be

ماضی کے پلے بواۓ اور آج کے مرد مومن وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات روکنے کے لئے مجرمان کو کیمیکل طریقہ کار سے نامرد بنانے کی منظوری تو دے دی ہے تاہم اس طریقہ کار پر عملدرآمد کیسے ہوگا اور آیا یہ سزا واقعی مجرمان کو مستقبل میں اس گھناونے جرم کے ارتکاب سے روکنے میں مدد دے گی، اس ضمن میں خود طبی ماہرین بھی مخمصے کا شکار ہیں۔

حال ہی میں جاری ہونےو الے صدارتی آرڈیننس میں صرف کیمیکل کیسٹریشن کا ذکر شامل ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں عدالت فیصلہ دے گی کہ کس مجرم کو یہ سزا ملنی ہے۔ کیمیکل کیسٹریشن کے عمل سے متعلق عدالتی حکم پر قائم کیا گیا ایک بورڈ کرے گا۔ تاہم اس قانون میں کیمیکل کیسٹریشن کے عمل کی تشریح نہیں کی گئی ہے جس کے باعث ماہر ڈاکٹرز بھی سوچ میں پڑے ہوئے ہیں کہ حکومت کہیں اس کام کے لئے بھی کوئی غیر روایتی طریقہ اختیار کرنے تو نہیں جا رہی۔

وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کی طرف سے ریپ کے خلاف قوانین میں کیمیکل کیسٹریشن جیسی سزاؤں کی اصولی منظوری کے بعد ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان نئے قوانین کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔صدر پاکستان عارف علوی نے 15 دسمبر کو اینٹی ریپ آرڈیننس 2020پر دستخط کر دیے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ قانون اب چار ماہ کے لیے مؤثر رہے گا اور اب اس عرصے میں پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے ان قوانین کو مستقل حیثیت دے سکتی ہے۔ اس نئے قانون میں ریپ کے مقدمات میں چار ماہ کے عرصے میں ٹرائل مکمل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ اس عمل کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے مشاورت کے بجائے حکومت نے آرڈینس کا راستہ اختیار کیا ہے جو ایک عارضی نوعیت کا قانون ہے۔ اس حوالے سے وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے آرڈیننس کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس قانون کے مستقبل کے بارے میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ فروی یا مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہو جائیں گے جس کے بعد پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کو اکثریت مل جائے گی اور پھر یہ قانون پارلیمنٹ سے بھی با آسانی منظور کرایا جا سکے گا۔

فروغ نسیم کے مطابق نئے قانون میں سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں جن میں سزائے موت، تا حیات قید، دس سے 25 سال کی قید، جرمانے اور کیمیکل کیسٹریشن جیسی سزائیں شامل ہیں۔ وزیر قانون کے مطابق کیمیکل کیسٹریشن یا سرجری کے ذریعے کسی کو کچھ عرصے یا ہمیشہ کے لیے نا مرد بھی بنایا جا سکے گا۔ اس قانون کے تحت قومی شناختی ادارہ نادرا ریپ کے مقدمات کے مجرمان کا ڈیٹا بنائے گا جسے صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔فروغ نیسم کے مطابق وزیر اعظم عوامی مفاد میں اس ڈیٹا کو ریلیز کرنے کا بھی حکم دے سکتے ہیں جبکہ یہ ڈیٹا ہسپتالوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھی شیئر کیا جا سکے گا۔
اس حوالے سے بڑا سوال یہ ہے کہ صدارتی آرڈیننس میں صرف کیمیکل کیسٹریشن کا ذکر شامل ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں عدالت فیصلہ دے گی کہ کس مجرم کو یہ سزا ملنی ہے۔ کیمیکل کیسٹریشن کے عمل سے متعلق عدالتی حکم پر قائم کیا گیا ایک بورڈ کرے گا۔ تاہم اس قانون میں کیمیکل کیسٹریشن کے عمل کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ اس قانون میں اینٹی ریپ کرائسز سیل اور خصوصی کمیٹی بھی بنائی جائے گی، جن کے ذریعے وزیر اعظم، صدر پاکستان اور چیف جسٹس کو بھی جلد ٹرائل مکمل کرنے سے متعلق مشاورتی عمل کا حصہ بنایا گیا ہے۔اس قانون کے مطابق اب ریپ کرنے والوں کو ان کی مرضی سے کیمیکل کیسٹریشن جیسی سزا دی جا سکے گی، جس سے وہ آئندہ ریپ جیسے جرائم سے باز رہ سکیں گے۔

واضح رہے کہ اس وقت دنیا کے چند ممالک ایسے ہیں جہاں عادی مجرمان کی جنسی ہوس کم کرنے کے لیے ایسی سزا کا تصور موجود ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے ریٹائرڈ طبی ماہر ڈاکٹر عبید علی کے مطابق کیمیکل کیسٹریشن ایک خطرناک سزا ہے، جس میں مردوں میں مردانگی ختم کرنے کی جستجو میں مردانہ ہارمون کی سطح کو کم کیا جاتا ہے، جس سے اس کے اندر جنسی لذت حاصل کرنے کی چاہت کچھ عرصے کے لیے کم کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عبید کہتے ہیں انسانی جسم میں حیاتیاتی کیمیائی نظام کا ایک توازن ہے اور اس میں مصنوعی چھیڑ چھاڑ اس فرد کے لیے انتہائی ہولناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ان کی رائے میں کیمیکل کیسٹریشن کے عمل سے دماغی اور نفسیاتی مسائل کے علاوہ دل کی بیماریوں کا پیدا ہونا تقریباً یقینی بات ہے۔ڈاکٹر عبید علی کا کہنا ہے کہ کیمیکل کیسٹریشن کا عمل تین سے پانچ سال تک مؤثر رہتا ہے اور اس کے بعد پھر جنسی صلاحیت پیدا کرنے والے ہارمونز ٹیسٹو سٹرون فعال ہو جاتے ہیں۔

دوسری جانب طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کیمیکل کیسٹریشن سے جنسی صلاحیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آہستہ آہستہ یہ صلاحیت دوبارہ بحال ہو جاتی ہے۔ایسی ادویات اور انجیکشن ضرور موجود ہیں جن سے جنسی صلاحیت کو کم کیا جاتا ہے مگر یہ کسی کو اس صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے مؤثر طریقہ نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک مہنگا علاج ہوتا ہے مگر اس کے جنسی صلاحیت پر زیادہ عرصے کے لیے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔اب یہ دیکھنا ہو گا کہ رہائی کے بعد ایسے شخص کی ہر تین ماہ بعد ہسپتال آنے کی ضمانت کون دے گا جبکہ دوران قید اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹر الطاف حسین کے مطابق کیمیکل کیسٹریشن کا عمل کم از کم ایک سال کے عرصے کے لیے جاری رہتا ہے اور اس عرصے میں وقفے وقفے سے مجرم کو جنسی صلاحیت کم کرنے والے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ڈاکٹر الطاف کے مطابق سزائے موت اور عمر قید جیسی سزاؤں کے متبادل کے طور پر 1944 میں پہلی بار کیمیکل کیسٹریشن کی سزا متعارف کرائی گئی تھی جو بعد میں دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہو گئی۔ان کے مطابق یہ سزا عادی مجرمان کے لیے تجویز کی گئی تھی۔ان کے مطابق اس عمل کے ساتھ نفسیاتی تھراپی کی بھی ضرورت پیش آتی ہے۔

ڈاکٹر الطاف کے مطابق یہ سزا یورولوجی کے شعبے میں مہارت رکھنے والے ڈاکٹر کی زیر نگرانی دی جاتی ہے جبکہ نفسیاتی تھراپی کا عمل ماہر نفسیات کی نگرانی میں ہوتا ہے۔اس وقت امریکہ کی چند ریاستوں کے علاوہ کیمیکل کیسٹریشن کی سزا انڈونیشیا، پولینڈ اور روس سمیت دیگر کچھ ممالک میں بھی رائج ہے۔بعض طبی ماہرین کی رائے میں اس عمل کے لیے کیسٹریشن کی اصطلاح درست نہیں ہے۔ان کے خیال میں کیسٹریشن تو ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس کے بعد جنسی صلاحیت دوبارہ فعال نہیں ہو سکتی۔ تاہم اگر اس وقت ہارمون کو ڈپرس کرنے والے رائج طریقہ علاج کی بات کی جائے تو پھر 20 سال کی عمر والے فرد پر تو ایسے انجکشن کے ذیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں باقی سب کی طرح ڈاکٹرز کو بھی ابھی اس بات کا انتظار ہے کہ اس شعبے میں کہیں حکومت کوئی نیا تصور تو متعارف کرانے نہیں جا رہی ہے، جس کے بارے میں ابھی شاید خود یورولوجی کے ماہرین بھی ذیادہ علم نہیں رکھتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button