فوج کیخلاف عمران کی بد زبانی بڑھتی کیوں جا رہی ہے؟


تحریک انصاف کے شتر بے مہار چیئرمین عمران خان کی جانب سے اپنی محسن فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زبان درازی میں مسلسل تیزی آتی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی ایکشن نہ لیا جانا ہے۔ پاکستان کے تین ٹکڑوں میں بٹ جانے، اس کا نیوکلیئر پروگرام ختم ہو جانے اور پاک فوج کے تباہ ہونے کی پیش گوئیاں کرنے کے اگلے ہی روزعمران شانگلہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دوبارہ فوج پر حملہ آور ہو گئے۔ موصوف نے فرمایا کہ فوج کہتی ہے کہ ہم نیوٹرل ہیں لیکن عوام جانتے ہیں کہ اصل طاقت صرف آپ کے پاس ہے، لہٰذا لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اورتاریخ آپ کے کردار کو کبھی معاف نہیں کرے گی خصوصاً جب ملک نیچے چلا جائے اور آپ کہیں کہ ہم تو نیوٹرل ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی خاطر جس طرح کی خوفناک ملک دشمن گفتگو عمران کر رہا ہے، اگر ایسی کوئی بات نواز شریف، آصف زرداری یا کسی اور سیاسی رہنما نے کی ہوتی تو اب تک اس پر غداری کا مقدمہ درج ہو کر اس کا ٹرائل شروع ہو چکا ہوتا، لیکن افسوس کہ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ عمران کے معاملے میں ہمیشہ انصاف کے دوہرے معیار اپناتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی زبان درازی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر علی وزیر کو فوج کے سیاسی کردار پر تنقید کرنے کی وجہ سے غداری کا کیس درج کر کے ایک سال جیل میں رکھا جا سکتا ہے تو عمران کیا آسمان سے اترا ہے جسے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف تقریریں کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ شانگلہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک 75 سال قبل ایک نعرے پر بنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دین کا راز یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، صرف پتھر کے بُت کی پوجا شرک نہیں پیسے کے بت کی پوجا بھی شرک ہے لیکن اس وقت موجودہ حکمران آئی ایم ایف کی پوجا کر رہے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ جھوٹ بولنے والے کی پوجا شرک ہے اور خوف کے بت کی پوجا سب سے بڑا شرک ہے کیونکہ خوف ایک قوم کو غلام بنا دیتا ہے، کبھی وہ انسان بڑا انسان نہیں بنتا جو سب سے پہلے خوف کے بت کو نہیں توڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو قوم خوف کے بت کو نہیں توڑتی وہ غلام بن جاتی ہے،ان کا کہنا تھا کہ حقیقی آزادی اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھ گئی ہے، 30 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا جبکہ بھارت نے چند روز قبل 25 روپے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت کم کی ہے۔تاہم موصوف نے اپنے خطاب میں عوام کو یہ نہیں بتایا کہ جس معاہدے کے تحت پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ان کی اپنی حکومت نےسائن کیا تھا۔

اسکے بعد عمران نے کہا کہ پاکستان کا ایک وفد اسرائیل گیا، اس میں ایک پاکستان کا نوکر بھی شامل ہے جو ایک سرکاری ادارے میں کام کرتا ہے، یہ لوگ بھارت سے اچھے تعلقات کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ کشمیریوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ تاہم عمران خان شاید بھول گئے کہ پاکستانیوں کے وفد کے دورہ امریکہ کا پلان پی ٹی آئی کے دور حکومت میں طے پایا تھا اور جس سرکاری ملازم کا وہ ذکر کر رہے ہیں وہ پی ٹی وی کا اینکر احمد قریشی ہے جس نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دورہ اسرائیل عمران خان کی مرضی سے طے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ خان صاحب یہ بھی بھول گئے کہ کشمیر کا سودا بھی انہی کے دور حکومت میں ہوا تھا نہ کہ موجودہ دور میں۔

عمران کا کہنا تھا کہ آج ملک کے حالات یہ ہیں کہ روپیہ گر رہا ہے، ملک کی دولت میں کمی آرہی ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، لوڈشیڈنگ کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں تو جو بھی اس سازش میں ملوث تھے انہیں تاریخ نہیں بھولے گی، نہ تو تاریخ موجودہ حکمرانوں کو معاف کرے گی اور نہ ہی انہیں اقتدار میں لانے والی اسٹیبلشمینٹ کو۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ ملک نہ سنبھالا گیا اور اس کا دیوالیہ نکل گیا تو میں اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سوویت یونین اور امریکا دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھیں لیکن جب ان کی معیشت زوال پذیر ہوئی تو سوویت یونین ٹوٹ گیا اور ان کی تگڑی فوج بھی انہیں اکٹھا نہ رکھ سکی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ ہم نیوٹرل ہیں، تو بسم اللہ آپ نیوٹرل ہوں لیکن لوگ جانتے ہیں کہ پاور آپ کے پاس ہے۔ یہ چوروں کا ٹولہ جس طرح قوم کو نیچے لے کر جا رہا ہے ایسے میں لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور تاریخ آپ کے اس کردار کو کبھی معاف نہیں کرے گی کہ ملک نیچے جا رہا ہے اور آپ کا نیوٹرل ہونے پر زور ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران کے موجودہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کا بنیادی مقصد فوجی قیادت کو دباؤ میں لانا ہے تاکہ وہ الیکشن کا راستہ ہموار کرکے اسے دوبارہ اقتدار میں لے آئے۔ تاہم وہ یہ خواہش کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ انکا چار سال کا اقتدار ان کی نااہلی اور نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کے نتیجے میں ملکی معیشت تباہی کا شکار ہو گئی۔ لہذا اب وہ کس منہ سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button