طارق عزیز بے اولاد ہونے کا غم لیکر دنیا سے گئے


فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنے نام کا سکہ جمانے والے طارق عزیز دل میں بے اولادی کا غم لئے دنیا سے چلے گئے۔ موت سے کئی سال قبل طارق عزیز نے اپنی تمام جائیداد ریاست پاکستان کے نام منتقل کر دی تھی۔
17 جون 2020 کی صبح کو آخری سانسیں لینے والے معروف کمپیئر، صداکار، اداکار، شاعر، کالم نگار اور سیاسی کارکن طارق عزیز کا شمار پی ٹی وی کے لیجنڈز میں ہوتا ہے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1997 کے الیکشن میں لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 94 سے انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو 4595 ووٹوں کے مقابلے میں نون لیگ کے ٹکٹ پر 50227 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ ریڈیو پاکستان سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے طارق عزیز کو پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد اناؤنسر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
28 اپریل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر جالندھر میں مقیم ایک آرائیں گھرانے میں پیدا ہونے والے طارق عزیز نے والدین کے ہمراہ منٹگمری موجودہ ساہیوال میں اپنا بچپن گزرا۔ 1950 کی دہائی کے وسط میں اپنے کالج میں خود کو ایک "سوشلسٹ” کہلوانا شروع کیا۔ گریجوایشن کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر کام کرنا شروع کیا اور پھر انہیں 26 نومبر 1964 میں پی ٹی وی کے افتتاح کے موقع پر تعارفی اعلان کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ یوں وہ پاکستان میں ٹی وی پر آنے والے اولین افراد میں سے ایک بنے۔ انہوں نے ان دنوں کی خوشحال اردو فلم انڈسٹری میں بطور ایک کریکٹر ایکٹر قدم رکھا۔ 1967میں ان کی پہلی فلم انسانیت ریلیز ہوئی وہ چند فلموں میں مرکزی کردار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے لیکن ان کا فلمی کریئر کچھ خاص متاثر کن نہ تھا۔ طارق عزیز کی قابل ذکر فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری ہار گیا انسان اور چراغ کہاں روشنی کہاں شامل ہیں۔ طارق عزیز نے ایک پٹھان خاتون ڈاکٹر سے شادی کی تاہم زندگی بھر اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ اولاد کی شدید خواہش کے باوجود طارق عزیز نے دوسری شادی نہ کی اور بالآخر اسی غم کو سینے میں چھپائے دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔
1974 میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والے کوئز شو ‘شیشے کا گھر’ سے متاثر ہو کر طارق عزیز اور عارف رانا نےعوامی سطح پر گیم شو پیش کرنے کا سوچا۔ یوں جنم ہوا نیلام گھر کا۔ 1975 میں شروع کئے جانے والے ان کے شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی دھائیوں تک جاری رہا بعد میں اسے بزمِ طارق عزیز شوکا نام دے دیا گیا۔ پروگرام کے آغاز میں ان کی جانب سے ادا کیا جانے والا جملہ ،،، دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں، آپ کو طارق عزیز کا سلام ہو،،، آج بھی زبان زد عام ہے۔
طارق عزیز نے نے فنون لطیفہ کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔1960 کی دہائی کے اواخر میں، طارق عزیز کو ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے محبت ہو گئی اور وہ بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی عوامی سیاسی جماعت پی پی پی کے رکن بن گئے۔ اس زمانے میں طارق عزیز کو ایک جوشیلے سوشلسٹ کے طور پر جانا جاتا تھا جو ذوالفقار علی بھٹو کی ریلیوں میں انقلابی نعروں سے شرکا میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ ان ریلیوں میں طارق عزیز اپنے ساتھ فلم کیمرا بھی ساتھ لے جاتے تھے اور انہوں نے ایسی کئی ریلیوں کو فلم کی صورت میں محفوظ کیا۔ جب پی ٹی وی کے پاس موجود ذوالفقار علی بھٹو کی ریلیوں کی فوٹیج کو ضیا حکومت نے ضائع کر دیا تو 1990 کی دہائی سے طارق عزیز کی فلمبند کردہ ریلیوں کی فوٹیجز کو ہی دکھایا جاتا رہا ہے۔
1977 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کے بعد بھی یہ پروگرام نشر ہوتا رہا۔ بلکہ 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے تک طارق عزیز کی ضیا آمریت سے قربت پیدا ہو گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ طارق عزیز نے فوجی حکومت کے ساتھ جو "سمجھوتے” کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ اپنے شو میں "مذہبی جذبات شامل” کریں گے اور حکومت کے "قدامت پسند نظریے” کو بڑھاوا دیں گے۔ اسی وجہ سے 1988 میں ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نیلام گھر شو منسوخ کر دیا جس پر طارق عزیز سیخ پا ہو گئے اور شو کو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ 1996 میں طارق عزیز نے دائیں بازو کی مرکزی جماعت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی اور 1997 میں وہ لاہور سے عمران خان کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
شریف حکومت نے طارق عزیز کو ان کا شو پی ٹی وی پر دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی۔ شو کا نام بدل طارق عزیز شو رکھا گیا، مگر یہ شو 70 اور 80 کی دہائیوں میں ملنے والی شہرت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ بعد ازاں طارق عزیز نے مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کر لی اور جنرل پرویز مشرف کی حامی پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہوں نے 1990 میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف مشرف کی بغاوت کو سراہا مگر وہ اپنی نئی پارٹی میں زیادہ دکھائی نہیں دئیے اور جلد ہی انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ نواز شریف کے دور میں سپریم کورٹ پر حملہ کرنے پر انہیں توہین عدالت کے الزام میں سزا سنائی گئی۔طارق عزیز نے مشرف کے زیر سایہ عام انتخابات 2002 میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن ان کو توہین عدالت کے الزام پر سزا ہونے کی بنا پر انتخابات کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد طارق عزیز ہمیشہ کے لیے عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔
طارق عزیز نے اپنی وصیت میں تمام اثاثے پاکستان کے نام کر دئیے تھے۔ اپنی وصیت میں انہوں نے لکھا تھا کہ بے اولاد ہونے کے باعث اپنے تمام تر سرمائے اور املاک کو پاکستان کے نام کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
طارق عزیز نے کالم نگاری بھی کی۔ سیاسی، سماجی، فلمی، ادبی اور سپورٹس کی مشہور ترین شخصیات کے انٹرویوز کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ طارق عزیز علم و ادب اور کتاب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ’’داستان‘‘ کے نام سے اور پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’’ہمزاد دا دکھ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ طارق عزیز کی فنی خدمات کے اعتراف میں 1992 میں انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button