کامل مایوسی کی فضا میں امید کی توقع؟

تحریر:نصرت جاوید، بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت

ریاست کے نہایت ہی طاقت ور حلقوں کی جانب سے امید تو یہ دلائی جارہی ہے کہ سب ’’ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔دل مگر مطمئن نہیں ہوپارہا۔ میری مایوسی کی اصل وجہ عمران مخالف سیاسی جماعتوں کا گزشتہ برس کے اپریل میں ہوا یہ فیصلہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد فوری انتخاب کروانے کے بجائے قومی اسمبلی کی ’’آئینی مدت‘‘ ہر صورت پوری کی جائے۔

اس کالم کے باقاعدہ قارئین اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میں عمران خان کے اندازِ حکمرانی کی بابت ہزاروں تحفظات کے باوجود انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کا حامی نہیں تھا۔میری پرخلوص خواہش تھی کہ انہیں آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے۔ اکتوبر2021ء میں لیکن ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے بارے میں ایک قضیہ شروع ہوا۔ وہ اپنے تئیں ختم تو ہوگیا مگر اس کی وجہ سے سرگوشیوں میں یہ افواہ شہر اقتدار میں تیزی سے پھیلنے لگی کہ عمران خان اپنی پسند کے جنرل فیض حمید کو قمر جاوید باجوہ کی معیاد ملازمت ختم ہونے سے کم از کم چھ ماہ قبل نیا آرمی چیف نامزد کرنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔ نومبر2022ء کے اختتام پر اگر فیض حمید اپنے منصب پر فائز ہوگئے تو سابق وزیر اعظم قبل ازوقت انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے سب کو حیران کردیں گے۔ ممکنہ انتخابات کے نتیجے میں انہیں دو تہائی اکثریت میسر ہونا یقینی نظر آرہا تھا۔ وہ مل جاتی تو عمران خان بتدریج ہمارے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدل کر ترکی کے اردوان کی طرح آئندہ برس تک ہمارے ’’سلطان‘‘ بنے رہ سکتے تھے۔

کئی نجی محفلوں میں سرگوشیوں میں بیان ہوئی عمران خان کی مبینہ طورپر سوچی ’’دس سالہ سکیم‘‘ سننے کو ملتی تو میں تلملاجاتا۔ کئی دوستوں کو یاددلاتا کہ آئینی اعتبار سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا آغاز 1973ء میں ہوا تھا۔اس حوالے سے نئے انتخاب 1978ء میں واجب تھے۔بھٹو صاحب نے مگر جنوری 1977ء میں انہیں مارچ کی سات تاریخ کو منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔ انہیں گماں تھا کہ کئی ٹکڑوں میں بٹی اپوزیشن جماعتیں ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ وہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں واپس لوٹ آئیں گے۔ ان دنوں بھی یہ افواہ گردش میں تھی کہ ’’دوتہائی اکثریت‘‘ کے ساتھ اقتدار میں لوٹ آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے بااختیار صدر بننا چاہیں گے۔پارلیمانی طرز حکومت سے جان چھڑالیں گے۔

جن لوگوں کو1976/77ء کے حقائق یاد نہیں تھے ان کے روبرو مصر رہا کہ ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے حصول اور 1998ء میں پاکستان کو ایٹمی قوت ڈیکلئر کرنے کے بعد نواز شریف بھی ’’نظام شریعتہ‘‘کے نفاذ کے بعد وطن عزیز کے ’’امیر المومنین‘‘ بننا چاہ رہے تھے۔ ان کی خواہش بھی لیکن 12اکتوبر1999ء کی نذر ہوگئی اور ہمیں جنرل مشرف کے نوبرس برداشت کرنا پڑے۔جبلی طورپر 2021ء کے اختتامی ایام میں مجھے یہ خدشہ لاحق رہا کہ عمران حکومت کے خلاف لگائی گیم بھی بالآخر ملک کو ویسے ہی عدم استحکام سے دو چار کرے گی جس کا ہمیں 1977ء اور 1999ء میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ دونوں برسوں میں جو بندوبست ’’عدم استحکام‘‘ کو سنبھالنے کے نام پر بالآخر نمودار ہوا اس کے نتیجے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ ان کی اجتماعی ساکھ بلکہ مزید مجروح ہوئی اور اس کی بدولت غیرپارلیمانی قوتیں مزید طاقت ور ہوگئیں۔
کوئی پسند کرے یا نہیں 2023ء کے ستمبر میں ہم ویسی ہی کیفیت سے دو چار ہیں۔تحریک انصاف اپنی بقاء کی فکر میں مبتلا ہوچکی ہے۔ اس کی جگہ 16مہینوں تک اقتدار میں رہی جماعتوں کے قائدین مہنگائی کے عذاب کی بدولت عوام کو منہ دکھانے جوگے نہیں رہے۔جلسے جلوس تو دور کی بات ہیں۔ وہ روایتی بیانات جاری کرنے سے بھی کترارہے ہیں۔شہباز حکومت کی جگہ جو نگران حکومت آئی ہے وہ اقتدار میں محض دو ہفتے گزارنے کے بعد اپنی ساکھ لٹوابیٹھی ہے۔ ہمارے گھروں میں بجلی کے جو کمر توڑ بل آئے تھے ان کی شدت میں دو بار ’’آئندہ 48گھنٹوں میں‘‘کچھ ریلیف فراہم کرنے کا وعدہ ہوا۔ یہ وعدہ مگر خام خیالی ہی ثابت ہوا۔

بجلی کے بلوں کی وجہ سے ہمارے نصیب میں آئی اذیت ابھی کم نہیں ہوپائی تھی تو پٹرول کے نرخوں میں بھی 15روپے کا اضافہ ہوگیا۔ ڈالر کی قدر بھی دو بارہ آسمان کی جانب بڑھنے لگی۔کامل مایوسی کے اس عالم میں آرمی چیف کو ازخود متحرک ہوکر لاہور اور کراچی میں صنعت کاروں سے ملاقاتوں کے ذریعے عوام کو حوصلہ فراہم کرنے کی مشقت سے گزرنا پڑا۔

دریں اثناء سیاسی بحران بھی گھمبیر تر ہورہا ہے۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال یہ کالم چھپنے کے آٹھ دن بعد اپنے منصب سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ منصب چھوڑنے سے قبل وہ چند اہم ترین مقدمات کی بابت ’’شارٹ اینڈ سویٹ‘‘ فیصلہ سنانا چاہ رہے ہیں۔عارف علوی کی معیاد ملازمت بھی ختم ہونے کو ہے۔ آئینی اعتبار سے نئے صدر کے انتخاب تک وہ ایوان صدر میں براجمان رہ سکتے ہیں۔وہاں مقیم رہتے ہوئے تاہم وہ کئی ایسے فیصلوں کا کم از کم ’’اعلان‘‘ کرسکتے ہیں جو سیاسی محاذ پر تھرتھلی مچاسکتی ہے۔ایسے کئی سوالات اور تنازعات بھی اٹھ رہے ہیں جن کے بارے میں آئندہ آنے والے چیف جسٹس بھی حیران کن رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔گزشتہ برس کے اپریل سے شروع ہوا افراتفری کا ماحول مجھ ناامید کو لہٰذا جلد ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ایسے میں ’’سب اچھا ہوجائے گا‘‘والی تسلی پر جی چاہتے ہوئے بھی اعتبار کرنا مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے۔

Related Articles

Back to top button