دھمکی کے باوجود بھارت نے ابھی تک پاکستان پر حملہ کیوں نہیں کیا ؟

دنیا حیران و پریشان ہے کہ ساؤتھ ایشیا کے دو نیوکلیئر ہمسایوں یعنی انڈیا اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر جنگ لڑنے سے کیسے روکا جائے۔ پہلگام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے دی جانے والی دھمکی کے بعد پورا انڈیا جنگی جنون میں مبتلا ہو چکا ہے جس میں میڈیا بھی اپنا پورا حصہ ڈال رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگلے 48 سے 72 گھنٹوں میں بھارت پاکستان پر ایک فضائی حملہ کر سکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو خطے میں پہلی نیوکلیئر جنگ چھڑنے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم بھارت نے اپنی دھمکی کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا جس کی ایک خاص وجہ ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رووف کلاسرا اپنی تازہ تحریر میں کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہے اور نہ ہی آخری مرتبہ۔ دونوں ملکوں کا یہ رویہ بہت پرانا ہے، دونوں ایک دوسرے پر حملے کا جواز تلاش کرتے رہتے ہیں۔ بھارت ماضی میں اپنے ہاں بڑی بڑی دہشت گردی کے بعد بھی سنجیدہ طور پر جنگ لڑنے کی دھمکی نہیں دیتا تھا‘ اگرچہ دو تین بار بھارت اپنی فوجیں سرحد پر لایا، تب لگتا تھا کہ جنگ ضرور ہو گی۔ یہ تب کی بات ہے جب واجپائی بھارت کے وزیراعظم تھے اور جنرل پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھال چکے تھے‘ واجپائی اور مشرف خطے کے دیگر ممالک کے سربراہان کے ساتھ نیپال میں ایک کانفرنس میں شریک تھے۔ نیپال کا اجلاس ایسے وقت پر ہو رہا تھا جب دونوں ملکوں میں کشیدگی عروج پر تھی اور لگتا تھا کہ کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ مشرف نے تقریر کرنے کے بعد واپس اپنی کرسی کی طرف جاتے ہوئے اچانک اپنا ہاتھ واجپائی کی طرف بڑھا دیا جو اس کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ مشرف کا یہ ایکشن سراسر غیر متوقع تھا‘ واجپائی بھی ایک لمحے کے لیے مشرف کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر حیران ہو گئے، لیکن انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر مشرف سے مصافحہ کیا اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

کلاسرا بتاتے ہیں کہ یوں دونوں نیوکلئیر ممالک میں جاری کشیدگی اور تلخی ایک لمحے میں ختم ہو گئی اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔

مشرف جب واجپائی سے ہاتھ ملانے جا رہا تھا تو اسے یقینا یاد ہو گا کہ واہگہ بارڈر پر وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ وہ واجپائی کے استقبال کیلئے نہیں گیا تھا کیوں کہ بھارتی وزیراعظم کو پروٹوکول کے تحت سیلوٹ کرنا پڑتا۔ اب وہی مشرف اُسی واجپائی سے ہاتھ ملانے جا رہے تھے۔ بزرگ ٹھیک کہتے ہیں کہ بعض اوقات ہاتھ سے دی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ اب برسوں بعد پھر وہی صورتحال ہے لیکن آج بھارت میں واجپائی جیسا وزیراعظم نہیں جو پاکستان کے ساتھ معاملات کو دانشمندی سے ہینڈل کرے۔ بھارت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ واجپائی اور کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ کی نرم مزاجی کی وجہ نے مسائل پیدا کیے لہٰذا مودی کو ایسا وزیراعظم سمجھا گیا جو سخت گیر مزاج کا حامل ہے۔ یوں مودی کو مقبولیت ملی اور اس کے بعد معاملات بگڑتے چلے گئے۔ پچھلے دس برس میں مودی کے دورِ اقتدار میں پاکستان اور بھارت کئی بار جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں‘ فروری 2019ء میں تو باقاعدہ فضائی جنگ لڑی بھی گئی۔ پیشتر اس کے کہ یہ جھڑپ خطرناک موڑ لیتی امریکہ اور دیگر ممالک نے جنگ رکوا دی اور گرفتار پائلٹ کو بھارت کے حوالے کر کے معاملات کو ٹھنڈا کرایا گیا۔

بھارت کبھی اس خوف کا شکار تھا کہ اگر پاکستان پر حملہ کیا تو اسلام آباد روایتی جنگ کے بجائے نیوکلیئر جنگ کی طرف جائے گا کیونکہ بھارتی فوج کو عددی برتری حاصل ہے اور اب جنگ چھوٹے چھوٹے ایٹم بموں سے لڑی جائے گی‘ لیکن 2019ء کے واقعے سے بھارت کو حوصلہ ملا کہ پاکستان فوری نیوکلیئر آپشن کی طرف نہیں گیا۔ بھارت کے بقول پاکستانی قیادت اکثر دھمکی دیتی تھی کہ اگر اس پر حملہ ہوا تو وہ سیدھا ایٹم بم استعمال کریں گے لیکن پاکستان نے روایتی جنگ لڑی اور بھارتی جہازوں کے جواب میں اپنے جنگی جہاز استعمال کیے۔ اس پر بھارت کو تسلی ہوئی کہ دونوں ملک ایٹم بم کے بغیر بھی جنگ لڑسکتے ہیں اور یہی بھارت چاہتا ہے‘ لہٰذا اس نے اس صورتحال کا جائزہ لیا کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا ردِعمل کیا ہوگا؟

فروری 2019ء میں پاکستان نے ایک مدبرانہ ردِعمل دیا اور اتنا ہی جوابی حملہ کیا جتنا پاکستان پر ہوا تھا۔ پاکستان کو بھارت پر ایک نفسیاتی برتری اب تک حاصل ہے کہ بھارت کا نہ صرف جہاز گرایا گیا بلکہ ان کا جنگی پائلٹ بھی گرفتار کیا گیا جس کی واہگہ بارڈر پر حوالگی پوری دنیا نے لائیو دیکھی۔

رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ ابھی نندن کی گرفتاری کے بعد بھارتی میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلا تھا کہ تب انڈیا کے پاس جدید جنگی اسلحہ تھا اور نہ ہی جہاز جو کہ روسی ماڈل کے تھے اور پرانے تھے، لہٰذا بھارت کے جنگی جہاز پاکستان کا مقابلہ نہ کر سکے۔ لہٰذا بھارتی قیادت نے فوری طور پر نیا اسلحہ خریدنے کا فیصلہ کیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں فرانس سے 36 عدد رافیل طیارے بھارت پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح بھارت نے اسرائیل اور امریکہ سے بھی اسلحہ خریدا جس میں جدید جنگی ہیلی کاپٹر اور میزائل سسٹم بھی شامل ہے۔

روایتی طور پر بھارت روس سے اسلحہ لیتا رہا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے روس یوکرین جنگ میں پھنسا ہوا ہے اور روس سے اسلحے کی سپلائی بیس فیصد کم ہوئی ہے۔ بھارت نے اب نئی منڈیاں تلاش کی ہیں اور امریکہ اور فرانس سے نیا اسلحہ خریدا ہے جو کہ جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہے۔ لیکن اب بھی بھارت کے پاس صرف دس ‘پندرہ فیصد ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کا اسلحہ ہے۔ بیشتر اسلحہ اب بھی پرانا ہے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں اگرچہ رافیل جہازوں کی وجہ سے بھارتی فضائی طاقت میں اضافہ ہوا ہے مگر اسے ساٹھ ہزار کروڑ روپے کی بھاری رقم بھی ادا کرنا پڑی۔ رافیل طیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس وقت پاکستان کے پاس امریکی ساختہ ایف 16 طیارے موجود ہیں لیکن امریکہ نے بھارتی دبائو کے تحت پاکستان کو اس بات کا پابند بنا رکھا ہے کہ وہ ایف 16 جہازوں کو اپنی سرحد سے باہر حملوں کے لیے نہیں بھیجے گا۔ لیکن اسے یہ اجازت ہے کہ اگر پاکستان پر حملہ ہو تو ایف 16 طیاروں کو پاکستان کے دفاع میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسلیے 2019 میں بالاکوٹ حملے کے رد عمل میں پاک فضائیہ نے جو جنگی جہاز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی ہیڈ کوارٹر کے قریب بم گرانے کے لیے بھیجے گئے تھے‘ وہ ایف 16 نہیں تھے بلکہ چین کے تعاون سے بنائے گئے جے ایف 17 تھنڈر جہاز تھے جو ایف سولہ کے لیول کی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

امریکہ نے 2019 میں پاک بھارت نیوکلیئر جنگ چھڑنے سے کیسے روکی ؟

اگرچہ بھارت رافیل جہاز خریدنے کے بعد خود کو زیادہ بہتر پوزیشن میں محسوس کر رہا ہے لیکن نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسے ایک ڈر اب بھی لاحق ہے کہ رافیل جہازوں کو آپریٹ کرنے کے لیے جو قابلیت چاہیے‘ وہ ابھی بھارتی پائلٹس کے پاس نہیں ہے‘ لہٰذا بھارتی قیادت پاکستان کے خلاف رافیل جہاز استعمال کرنے کا خطرہ مول لینے سے گھبرا رہی ہے۔ اسے ڈر ہے کہ اگر 2019 کی طرح ایک بار پھر بھارت کا کوئی جنگ جہاز پاکستان کے ہاتھوں گر گیا اور ایک اور ابھینندن پکڑا گیا تو مودی کہاں کھڑے ہوں گے؟ شاید یہی وہ خوف ہے جو اَب تک بھارت کی جانب سے پاکستان پر فضائی حملے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

Back to top button