سقوط ڈھاکہ اور APS کے بعد کس سانحے کی تیاری ہے؟


معروف اینکر پرسن اور صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں تحریک انصاف کے دور اقتدار میں نا انصافی حد سے بڑھ گئی ہے، بھوک، افلاس اور محرومیاں سماجی تفریق بڑھا رہے ہیں، انصاف دولت کی دہلیز پر کھڑا ہے، ایکطرف اسلام آباد میں بااثر امراء کے ٹاورز جائز قرار دے کے بچا لئے جاتے ہیں تو دوسری طرف کراچی میں پائی پائی جوڑ کر آشیانہ بنانے والوں کے گھر ناجائز قرار دے کر گرا دیے جاتے ہیں، یعنی محلوں اور جھونپڑیوں والوں کے لیے انصاف کا دوہرا معیار اپنایا جا رہا یے۔ یوں نئے پاکستان میں معاشی نا انصافی اور سماجی تفریق بڑھتی جا رہی ہے جس سے پیدا ہونے والی محرومیاں سانحوں کو جنم دیتی ہیں۔
بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ دوبارہ سے ماہ دسمبر آ رہا ہے۔ دسمبر جب بھی آتا ہے، دل غم میں ڈوب جاتا ہے کیونکہ 16 دسمبر ہمیں پاکستان کے دو لخت ہونے کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستان کی تقسیم سینے میں اس چبھن کی مانند ہے کہ جو نکالی نہیں جا سکتی۔ چند سال پہلے تک سانحہ مشرقی پاکستان ہر 16 دسمبر کو ایک سُلگتی ہوئی یاد بن جاتا تھا۔
ٹیلی ویژن سکرینوں پر پاکستان کے دو لخت ہونے کے دن کو محض تاریخ کے اوراق کی طرح پلٹ دیا جاتا۔ ریڈیو پر کوئی ایک آدھ غزل ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد‘ چلا دی جاتی۔ کوئی ایک آدھا حساس کالم نگار کوئی ایک آدھ صفحہ مشرقی پاکستان کے سانحے پر لکھ کو اپنا فرض ادا کر دیتا، کوئی شاعر کسی ادھ جلی سگریٹ کی راکھ میں شعر دفن کر دیتا، کوئی کہانی کار دبستان کسی ان لکھی کہانی میں لپیٹ دیتا اور کوئی فنکار یک جہتی کے دنوں کی مشترکہ فلم کا بینر چلا دیتا، گلوکار شہناز بیگم کی شہنائی سی آواز میں سوہنی دھرتی کا نوحہ پڑھتا اور کوئی راہنما گزرے دنوں کی یاد میں راہ زنوں کی بپتا سُناتا۔ ان گزرے 50 برسوں میں کھوئی ہوئی ریاست میں صرف حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے اوراق ہی ملتے ہیں جو باقی بچ جانے والی قوم کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بتاتے ہیں کہ یہ عمارت بھی کبھی عظیم تھی۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ سانحے اچانک نہیں ہوتے بلکہ زمانے انکی پرورش کرتے ہیں، لیکن اگر پرانے سانحے دبا دیے جائیں تو اکثر نئے رونما ہو جایا کرتے ہیں۔ اسی لیے 16 دسمبر ہمیں ایک اور سانحہ دے گیا۔ سو سے زائد بچوں کے قتل کا سانحہ۔ 2014 کی دسمبر 16 کا یہ سانحہ بڑا تھا یا دسمبر 16 1971 کا سانحہ، یہ فیصلہ کم از کم مجھ سے آج تک نہیں ہوا، ہم سقوط ڈھاکہ پر ماتم کریں یا سانحہ اے پی ایس پر، دھرتی اُجڑنے کا غم بڑا ہے یا ماؤں کی گودیں اُجڑنے کا دُکھ۔
سانحہ پشاور بھی اچانک رونما نہیں ہوا تھا اور سانحہ مشرقی پاکستان بھی، 16 دسمبر کی تاریخ دہشت گردوں نے کیوں چنی، شاید اس لیے کہ ہم اُس سانحے پر سانحہ برداشت کر سکتے ہیں یا اس لیے کہ مستقبل کے قتل کو ماضی کی قربان گاہ میں تلاش لیں۔
عاصمہ شیرازی یاد دلاتی ہیں کہ 27 دسمبر کو دختر مشرق بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کا سانحہ بھی کچھ کم نہ تھا مگر میں قلم یہاں روک رہی ہوں، اس سانحے پر دو جملے لکھ کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا سو اسے کسی اور دن کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سانحے گُزر جاتے ہیں مگر اپنی آہٹیں چھوڑ جاتے ہیں۔ آہٹ پر کان رکھنے والے نقیبوں کا پتہ چلا لیتے ہیں مگر وقت کی چاپ سُنی ان سُنی کرنے والے نقب سے بچ نہیں سکتے۔ محرومی اور نا انصافی حد سے بڑھ رہی ہے، بھوک اور افلاس تفریق بڑھا رہے ہیں، انصاف دولت کی دہلیز پر ہے، ایک طرف اسلام آباد میں امراء کے ٹاورز جائز تو دوسری طرف کراچی میں پائی پائی جوڑ کر آشیانہ بنانے والوں کے گھر توڑ دیے جاتے ہیں، محلوں کے لیے انصاف اور جھونپڑیوں کے لیے ترازو کچھ اور ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایم این اے علی وزیر کی ضمانت منظور
بقول عاصمہ شیرازی، ہمارے سماج میں بڑھتی ہوئی سماجی نا انصافی معاشرتی تفریق بڑھا رہی ہے جبکہ حکمران اشرافیہ کو احساس تک نہیں۔ بڑھتی آبادی اور بے روزگاری جیسے مسائل ہماری آنکھوں سے اوجھل اور صحت، انصاف، بنیادی ضرورتوں کا حصول ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ عوام کے اندر غم اور غصے کا لاوا اُبل رہا ہے جس کی ہلکی سی جھلک گوادر میں ہونے والے عورتوں کے احتجاج میں نظر آئی جب عورتوں کا جم غفیر اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آیا۔ پینے کے لیے صاف پانی اور گوادر کے حقوق مانگنے والی یہ عورتیں جس طرح آپ ی آواز بلند کر رہی تھیں وہ خوش آئند بھی ہے اور خوفناک بھی کیونکہ احساس محرومی کے شکار اس ہجوم کی آوازوں کو نہ سُنا گیا تو صدائیں چیخوں میں بدل سکتی ہیں۔ خدا کرے کہ اب کوئی اور سانحہ نہ ہو۔

Related Articles

Back to top button