کیا اسٹیبلشمنٹ کی ن لیگ سے ڈیل کی کوشش ناکام ہو گئی؟

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون ختم کرنے کے اعلان سے یہ تاثر کیا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نواز لیگ سے ڈیل کی کوشش ناکامی کا شکار ہو گئی یے۔ خیال رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے یہ افواہیں زوروں پر تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور نواز لیگ کے مابین ڈیل کے لیے خفیہ مذاکرات جاری ہیں جن کی کامیابی کی صورت میں عمران خان کی چھٹی ہو جائے گی اور برسراقتدار آنے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید ایک سال کی توسیع دی جائے گی۔

تاہم نون لیگ کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے اب توسیع میں مدد دینے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر ان کی جماعت اقتدار میں آئی تو وہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون ہی ختم کر دے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عباسی کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف آرمی چیف کو توسیع دینے کے حق میں نہیں اور اگر کسی حوالے سے نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ میں مذاکرات ہو رہے تھے تو شاید جنرل باجوہ کی توسیع کے معاملے پر ڈیڈلاک کے بعد یہ عمل تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔ خیال رہے کہ شاہد خاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مسلم لیگ نون نے آرمی چيف کی ملازمت میں توسيع کا قانون صرف فوج کی عزت کی خاطر پاس کرايا تھا مگر ایسا کرنا غلط تھا اور اس قانون کو ختم کیا جانا چاہئے ورنہ ہم دوبارہ برسر اقتدار آکر اس قانون کو ختم کر دیں گے۔

شاہد خاقان کا کہنا ہے کہ آرمی چيف کی توسيع کا قانون درست نہيں، ایسی روایت ڈالنا غلط ہے کیونکہ اس سے سینئر موسٹ جرنیلوں کی سنیارٹی کا حق متاثر ہوتا ہے۔ عباسی کا کہنا تھا کہ نواز لیگ اقتدار میں آ کر آرمی چيف کی توسيع کا قانون ختم کرے گی اور اس میں فوج بھی اس کا ساتھ دے گی۔

یاد رہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو وزیراعظم عمران خان نے 2019 میں عہدے کی معیاد ختم ہونے پر تین سال کی توسیع دی تھی جسکے لیے قومی اسمبلی سے ایک قانون پاس کروایا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے علاوہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی یہ قانون پاس کروانے کے حق میں ووٹ دیے تھے۔ تاہم اب شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اس قانون کو پاس کروانا غلط تھا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں اقتدار تک پہنچنے کا راستہ صرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت اور افہام و تفہیم سے ہی ہموار ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی لیڈر اور ملکی میڈیا ان قیاس آرائیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی توسیع شدہ مدت جب اس سال نومبر میں ختم ہو گی تو کیا انہیں ایک مزید توسیع دی جائے گی یا کسی سینئر جنرل کو پاک فوج کا نیا سربراہ بنایا جائے گا۔

حتی کہ پاک فوج کے ترجمان اور خود آرمی چیف نے بھی اس بارے کوئی وضاحت کر کے معاملہ صاف کرنے کی کوشش نہیں کی، وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس حوالے سے ایک سوال پر گول مول جواب دیا ہے کہ ابھی تو نومبر آنے میں بہت دیر ہے۔ ناقدین کا کہنا یے کے توسیع کے معاملے پر عمران خان اور جنرل باجوہ دونوں کھل کر سامنے نہیں آ رہے، نہ تو جنرل باجوہ کی طرف سے توسیع کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور نہ ہی عمران کی جانب سے توسیع دینے سے انکار کیا گیا ہے۔

جنرل باجوہ کو توسیع دلوانے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے والی نواز لیگ کا اب یہ موقف ہے اگر کسی مجبوری یا قومی ہنگامی حالات کی وجہ سے کسی فوجی سربراہ کو ایک مدت کے لئے توسیع دی گئی تھی تو یہ اصول بھی واضح ہونا چاہئے کہ وہی شخص دوبارہ اس سہولت سے استفادہ نہیں کرسکتا۔ اس پہلو پر مزید غور سے پہلے یہ واضح کرنا بھی اہم ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کے تین شعبے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ ہیں۔ تاہم ماضی میں صرف بری فوج کے سربراہ کو ہی اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔

اس سے پہلے یحیی، ایوب، ضیا اور مشرف جیسے غاصب فوجی جرنیل اقتدار پر غیر آئینی قبضہ کر کے خود ہی اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کرتے رہے۔ تاہم 2008 کے بعد شروع ہونے والے جمہوری دور میں پہلے جنرل پرویز اشفاق کیانی نے پیپلز پارٹی سے اپنے عہدے کی مدت میں توسیع حاصل کی حالانکہ ملک میں کوئی غیر معمولی حالات نہیں تھے۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ آصف زرداری کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بنائے گے میمو گیٹ سکینڈل کے باعث سخت دباو میں تھی۔

عمران خان سگریٹ مافیا پر ٹیکس کیوں نہیں لگاتے؟

اس کے بعد ان کی جگہ لینے والے جنرل راحیل شریف نے میاں نواز شریف سے توسیع حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، اسی دوران 2014 میں عمران خان نے اسلام اباد میں تب کے آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے ایماء پر دھرنا بھی دیا، جسے بعد میں جنرل راحیل شریف سے مذاکرات کے بعد ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، تاہم نواز شریف پھر بھی راحیل شریف کو توسیع دینے پر راضی نہ ہوئے۔

بود ازاں موصوف فوج سے ریٹائر ہوکر خصوصی اجازت نامے پر سعودی عرب کی ’اسلامی فوج‘ کی سربراہی کے لئے ریاض چلے گئے۔ ان کی جگہ لینے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے پہلے عمران کو اقتدار تک پہنچانے کے عمل کی نگرانی کی پھر سپریم کورٹ کے اعتراض کے باوجود 2019 میں ریٹائر ہونے کی بجائے، ایک قانونی ترمیم کے ذریعے تین سال کی مذید توسیع حاصل کر لی۔

اس موقع پر یہ عذر تراشا گیا تھا کہ بھارت کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ اب ان کی توسیع شدہ مدت اس سال نومبر میں ختم ہوگی لیکن ابھی سے ایسا ماحول بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ جنرل باجوہ نومبر میں اپنے عہدے سے دست بردار ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، بلکہ یہ قیاس یقین میں تبدیل رہا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے عہدے کی مدت میں توسیع چاہتے ہیں۔

جنرل باجوہ کی پہلی توسیع کا مقصد تو شاید عمران کی صورت میں متعارف کروائے گئے ہائیبرڈ سیاسی انتظام کو کامیاب کروانا تھا لیکن ابھی دوسری توسیع کے ’اغراض و مقاصد‘ واضح نہیں ہوسکے۔ لیکن تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ملک میں سیاسی تبدیلی یا آئندہ سیاسی حکومت کا فیصلہ 2023 میں ہونے والے عام انتخابات میں نہیں ہو گا بلکہ اس کا تعین نومبر 2022 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے فیصلہ سے ہو جائے گا۔

خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں یہ خبر گرم تھی کہ اگر جنرل باجوہ نے اپنے عہدے میں ایک اور توسیع لینی ہے تو موجودہ سیاسی سیٹ اپ برقرار رہنے کے امکانات کافی کم ہیں کیونکہ عمران خان اس مرتبہ توسیع دینے کے موڈ میں نہیں۔ لہذا اگر موجودہ سیٹ اپ لپیٹا جاتا ہے اور نئی حکومت اقتدار میں لانی ہے تو پہلے جنرل قمر باجوہ کو توسیع کی یقین دہانی کروانا ہوگی۔ تب یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ جنرل باجوہ کو توسیع نواز شریف دیں گے یا عمران خان۔ اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار نجم سیٹھی نے حال ہی میں بتایا کہ کچھ وفاقی وزرا یہ دعوی کر رہے ہیں ہے کہ جنرل باجوہ کو توسیع کی آفر کردی گئی ہے اور ڈیل ہو چکی ہے۔

اسی لئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ توسیع ہی وہ اہم ترین معاملہ تھا جس کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کے نواز لیگ سے خفیہ مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ اس دوران وفاقی دارالحکومت میں تبدیلی کی افواہیں بھی زور پکڑتی رہیں اور عمران خان نے خود اس خدشے کا اظہار کر دیا تھا کہ نواز شریف کو واپس لا کر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں عمران خان جنرل فیض حمید کو اگلا آرمی چیف مقرر کرنا چاہتے ہیں تاکہ الیکشن 2023 میں ان کی جیت کے کچھ امکانات بن جائیں، تاہم اپوزیشن کی یہ خواہش ہے کہ عمران خان اپنی مدت پوری نہ کریں اور اگلا آرمی چیف نئی حکومت مقرر کرے۔ اس صورتحال میں جنرل باجوہ کے عہدے میں ایک اور توسیع کا معاملہ کلیدی حیثیت اختیار کرگیا۔ لہذا اپوزیشن قیادت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ایک بنیادی نکتہ آرمی چیف کے مدت ملازمت میں توسیع کا بھی لگتا ہے۔

لیکن شاہد خاقان عباسی کے حالیہ بیان کے بعد اب ان مذاکرات کے ناکام ہو جانے کی شنید ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے کرسی بچانے کی خاطر اپنے موقف سے یوٹرن لیتے ہوئے جنرل قمر باجوہ کو دوبارہ توسیع دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے جس کا مطلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بدستور کپتان حکومت کا ساتھ دیتی رہے گی اور ن لیگ کا فوری اقتدار میں آنے کا امکان خاصا کم ہے۔

Related Articles

Back to top button