نون لیگ اپنی مقبولیت بارے غلط فہمی کا شکار کیوں؟

سینئر صحافی ، سابق سفیر اور کالم نگار عطا الحق قاسمی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی تنظیمی صورتحال اس وقت مثالی نہیں ہے، وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہے. یہ اپنے ان ووٹروں اور بہی خواہوں کو نظرانداز کر رہی ہے جو برس ہا برس سے ان کے سپورٹر رہے ہیں اور بد زبانوں سے گالیاں سنتے آ رہے ہیں.پارٹی کے صف دوم کے رہنما پارٹ ٹائم سیاست کر رہے ہیں وہ دو چار مہینے بعد عوام کے درمیان آتے ہیں چہرہ نمائی کرتے ہیں اور اس کے بعد اگلے چند مہینوں کیلئے سلیمانی ٹوپی پہن لیتے ہیں اور اتنا عرصہ نظر نہیں آتے۔ اپنے ایک کالم میں عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے بالآخر میاں محمد نواز شریف کی آمد کی حتمی تاریخ دے دی ہے، وہ 10 اکتوبر کو لندن سے پاکستان پہنچ رہے ہیں اس وقت مسلم لیگ کے پاس چہرہ نمائی کیلئے نواز شریف بہترین آپشن ہیں. پی ڈی ایم کے مشترکہ فیصلوں کا سارا بوجھ مسلم لیگ (ن) کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہے چنانچہ بجلی کی قیمتوں میں جو ہوشربا اضافہ ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا بلند ترین اور بدترین اضافہ ہے ،لوگ نہیں جانتے آئی ایم ایف کیا بلا ہے اور اگر معاہدہ نہ کیا جاتا تو عوام پر اس سے بھی برا وقت آسکتا تھا، انہیں تو صرف یہ پتہ ہے کہ بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد ان کے پاس بچتا کچھ نہیں ہے چنانچہ گھر گھر ماتم کی فضا ہے کچھ بدنصیب تو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کر چکے ہیں،

عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال میں کوئی منظم سیاسی پارٹی ہوتو وہ کچھ نہ کچھ عوامی جذبات کو ایک حدتک نارمل کر سکتی ہے مگر بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) کی تنظیمی صورتحال اس وقت مثالی نہیں ہے، وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہے اور مجھے یہ لگتا نہیں کہ وہ انتخابات کو ایزی لے رہی ہو مگر کچھ علامتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پارٹی کے بہی خواہوں اور ووٹروں کے متعلق یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ تو اپنے ہیں انہوں نے کہاں جانا ہے ۔سعادت حسن منٹو کے الفاظ ہیں ’’یہ تو اپنا خوشیا ہے ‘‘ سو اس جملے کے مصداق اپنے ووٹروں اور اپنے ان بہی خواہوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے. اس وقت پارٹی کی واحد امید نواز شریف سے وابستہ ہے کہ اس شخص نے اپنے اصولوں کی خاطر وزارتِ عظمیٰ سےہاتھ دھوئے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، خوفناک قید تنہائی کا سامنا بھی کیا جس میں قیدی کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس وقت دن ہے یا رات ، جو اہلکار اس نوع کے قیدی کے لئے کھانا لیکر آتا ہے اسے حکم ہوتا ہے کہ وہ قیدی سے ہم کلام نہ ہو نہ اس سے بات کرے اور نہ اس کی کسی بات کا جواب دے، کسی کمزور اعصاب کے حامل شخص کے لئے یہ صورتحال ناقابل برداشت بھی ہو جاتی ہے.صرف یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم نواز شریف کو کراچی سے لاہور ہتھکڑیاں لگا کر اور انہیں سیٹ سے باندھ کر لایا گیا جب اس شخص کے عزم کو شکست نہ دی جاسکی تو مضحکہ خیز مقدمات میں اس کو ایسی سزائیں سنائی گئیں جو غیر انسانی تھیں ۔انہیں سات سال کے لئے جدہ جلا وطن کر دیا گیا۔

عطا الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پی ٹی آئی ہی کے ڈاکٹروں نے رپورٹ دی کہ پلیٹ لیٹس اس حد تک کم ہیں کہ مریض کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، جس پر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی، نواز شریف کی بدترین کردار کشی کی گئی، بے ہودہ اور بے تکے الزامات پر انہیں نااہل قرار دیا گیا اور الزام کرپشن کے نہیں، اقامہ اور اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے تھے، اوپر سے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور انکے کارندوں نے بدتمیزی کی حد کر دی اور انکے خلاف نازیبا اور گھٹیا پروپیگنڈے کو آخری حد تک لے گئے، لندن میں ان کے گھر کے باہر تھرڈ کلاس نعرے لگائے گئے.اور میں اس بات پر حیران ہوں کہ لندن پولیس نے کسی کے گھر کے باہر اس غنڈہ گردی کی اجازت کیسے دی جبکہ ہمسائے بھی احتجاج کرتے رہے کہ ان حرکتوں سے ان کی نقل و حرکت مشکل ہوگئی ہے.

عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ کرپشن کے غیر موجود حقائق پر خاقان عباسی کا یہ بیان کافی ہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ نواز شریف نے کبھی کسی بھی دور میں کرپشن نہیں کی۔ عباسی صاحب کا حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ پارٹی کی ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں اور اس کے باوجود وہ کلمۂ حق کہنے پر مجبور ہیں۔ مسلم لیگ (ن) صرف نواز شریف پر نہ رہے بلکہ خود بھی کچھ ہل جل کرے۔ ان کی آمد تک پوری پارٹی کومتحرک ہونا چاہیے اور کسی کو گرانے اور کسی کو اٹھانے کی بجائے متحد ہو کر الیکشن کی تیاری کرے۔ یہ مرحلہ اب کے آسان نہیں ہے، اس کیلئے محنت شاقہ اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہے.

 

Related Articles

Back to top button