پرویز الٰہی اور چوہدری سرور ایک دوسرے کے آمنے سامنے


گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کے مابین بڑھتے ہوئے اختلافات تب کھل کر سامنے آگئے جب پنجاب اسمبلی نے گورنر پنجاب کی جانب سے مسترد کر کے واپس بھجوایا جانے والا استحقاق بل دوبارہ سے منظور کرلیا جس کے بعد اب یہ بل قانون بن گیا ہے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس چپقلش کو پرویز الہی اور چوہدری سرور کی لڑائی قرار دینا درست نہیں کیونکہ گورنر پنجاب نے یہ بل وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے مشورے سے مسترد کیا تھا لہٰذا یہ یہ گورنر کی نہیں بلکہ وزیراعظم کی شکست ہے جو اراکین اسمبلی کی بجائے بیوروکریسی کو طاقتور بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ 29 جون کو بیوروکریسی کو اسمبلی کے تابع کرنے کے مقصد سے پاس کیا جانے والا صوبائی اسمبلی (استحقاق) ترمیمی بل 2021 گورنر پنجاب جچودھری سرور نے اعتراضات لگا کر مسترد کر دیا تھا۔ گورنر پنجاب نے استحقاق بل کو آئین کی دفعات 10-اے اور 66(3) سے متصادم ہونے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کو واپس بھجوایا تھا۔ اس بل میں ممبران اسمبلی کی بات نہ ماننے والے بیوروکریٹس اور انکے خلاف خبریں دینے والے صحافیوں کے لیے قید اور جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔ تاہم صحافی برادری کے احتجاج کے بعد ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ان میڈیا سے متعلق شقوں کو خارج کردیا گیا تھا لیکن بیوروکریسی کے حوالے سے جرمانے اور سزاؤں کی شقیں برقرار رکھی گئی تھیں۔ تاہم چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر محمد سرور کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے 3 اگست کے روز پرائیویٹ ممبرز ڈے پر تحفظ استحقاق ترمیمی بل 2021 ءدوبارہ منظور کرلیا۔ اس قانوننخے بننے کے بعد اب بیوروکریسی ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے پر انہیں جوابدہ ہوگی۔ یہ بل قاف لیگ کے رکن اسمبلی ساجد بھٹی نے پیش کیا جسے تمام ارکان نے متفقہ طور پر منظور کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسپیکر پرویز الٰہی کی تقریرکے دوران اپوزیشن نے چوہدری پرویزالٰہی کیلئے ’شیر شیر‘ کے نعرے لگائے۔بل کی منظوری کے بعد اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھاکہ بل کی منظوری سے اب کسی بھی بیوروکریٹ کی یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ اسمبلی ممبر کی بات نہ سُنے، انہوں نے اسمبلی میں ارکان کیا کہ اب پنجاب میں بیوروکریسی کی بدمعاشی نہیں چلنے دیں گے۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ کوئی غلطی فہمی میں نہ رہے، تحفظ استحقاق بل قانون بن چکا ہے۔ حکومت اپنی گورننس درست کرے، انہون نے کہا کہ ہم لوگوں نے پنجاب میں تین سال منتوں اور ٹرکوں سے نکالے ہیں۔ لیکن ہم جس بیوروکریسی کی منتیں کرتے رہے وہ ہمارے ہی برتن توڑتی رہی، ایک بیوروکریٹ اٹھتا ہے کہتا ہےکہ میں کسی کو جواب دہ نہیں، اب حکومت کو بھی اپنا کام کرنا ہوگا۔ اب منتوں سے کام نہیں چلے گا۔ اب بیوروکریسی بھی جواب دہ ہوگی اور پنجاب حکومت کو بھی کام کرکے دکھانا ہوگا۔
پرویز الہی نے مذکورہ قانون سازی پر اراکین صوبائی اسمبلی کو اپنی تقریر میں مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس بل کو اب باضابطہ قانون بننے کے لیے گورنر پنجاب کے دستخط کی بھی ضرورت نہیں رہی چونکہ گورنر کسی بھی بل کو صرف ایک مرتبہ ہی مسترد کر سکتے ہیں اور جب اسمبلی اسے دوبارہ پاس کر لے تو پھر کسی اور منظوری کی ضرورت نہیں رہتی اور وہ قانون بن جاتا ہے۔
پرویز الہی نے سرکاری افسران کو خبردار کیا کہ اب کوئی بھی ایوان کا استحقاق مجروح کرنے کی جرات نہ کرے ورنہ اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ انہوں نے اراکین صوبائی اسمبلی کو یہ بھی کہا کہ اگر ڈپٹی کمشنر انہیں فون کال کریں تو اسے ٹیپ کیا جائے تا کہ ایوان بھی پنجاب کی بیوروکریسی کے رویے سے آگاہ ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک دو افسران کی مثالیں قائم ہونے کے بعد پنجاب کے تمام بیوروکریٹس سیدھے ہوجائیں گے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے تذکرہ کیا کہ کس طرح پولیس بغیر کسی وارنٹ کے گوجرانوالہ کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے گھر میں زبردستی گھس گئی تھی جبکہ ان کی والدہ سخت بیمار تھیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگر استحقاق کمیٹی کے چییئرمین شکایت کرتے تو کوئی افسر پیش نہیں ہوتا یا وہ کمیٹی کے اختیار کو چیلنج کردیتے۔ ایوان میں اراکین کی جانب سے نعرے بازی پر انہوں نے کہا کہ وہ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کا اجرا یقینی بنائیں گے۔ اسپیکر نے حکومت پر زور دیا کہ اچھا خاصہ وقت گزر چکا ہے اب ڈلیور کیا جائے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رکن سمیع اللہ نے کہا کہ گورنر پنجاب نے صرف بیوروکریسی کے دباؤ میں آ کر بل واپس بھیجا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدان سرکاری افسران کے کاموں میں سہولت کے لیے قانون نافذ کرتے ہیں اور وہی افسران سیاست دانوں کو ہدف بناتے پھرتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ بل وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کی مشاورت سے واپس بھیجا تھا لہذا یہ گورنر کی نہیں بلکہ عمران خان اور عثمان بزدار کی شکست ہے۔

Related Articles

Back to top button