بڑے شہروں میں دہشت گردی کی کاروائیوں کیلئے ’بین الاقوامی اسکیم‘ جاری ہے

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں میں دہشت گردی کی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے ایک ’بین الاقوامی اسکیم‘ چل رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو سخت اقدامات اٹھانے اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔

شیخ رشید سے سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے لاہور کے جوہر ٹاؤن دھماکے سے بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت دیکھے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’’مجھے (بھارت) کے ملوث ہونے میں کوئی شک نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ایک ’انتہائی خطرناک گروہ‘کراچی میں پکڑا گیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو ضمانت پر رہا کیے جانے کا ایک بڑا مسئلہ ہے، ادارے وقت آنے پر اس کا نام سامنے لائیں گے‘۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ بیرون ملک جیلوں سے رہائی پانے والے افراد کو پاکستان لایا گیا تھا اور ’کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات کے لیے ایک بین الاقوامی اسکیم چلائی جارہی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت نہیں جانتا کہ ہماری ایجنسیاں اور پولیس اب کس حد تک تربیت یافتہ ہیں، یہ 1978، 1979 کے ادارے نہیں ہیں، یہ جدید ٹکنالوجی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ہماری تمام تر معاملات پر نگاہ ہے اور ہمیں لاہور میں حملے کی توقع تھی‘۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ’پاکستان کو سخت اقدامات اٹھانا ہوں گے کیونکہ بھارت (پاکستان میں غیر مستحکم سرگرمیوں سے) باز نہیں آرہا ہے‘۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ’ہمارے درمیان چند لوگ بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کی بات کر رہے ہیں، وہ کس منہ سے یہ بات کر رہے ہیں‘۔

وزیر داخلہ نے زور دے کر کہا کہ ’پاکستان کو سخت، مضبوط اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملکی سلامتی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں‘۔

انہوں نے افغانستان میں بھارت کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ یک بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے کہ ’بہت زہر اگلا جارہا ہے‘ اور پاکستان پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اس صورتحال میں ہمیں سینڈویچ بنانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن امید ہے کہ ہم اس سے کامیابی کے ساتھ نکلیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی فوج، ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سویلین ایجنسیاں مکمل طور پر چوکس اور تیار ہیں‘۔

وزیر داخلہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ لاہور میں دھماکا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پاکستان کی گرے لسٹ کی حیثیت سے متعلق فیصلے سے چند روز پہلے کیا گیا، ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے جون 2018 کے ایکشن پلان پر 27 میں سے 26 نکات کو پہلے ہی پورا کر لیا تھا۔

وزیر داخلہ کے یہ بیانات مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف کے کہنے کے چند ہی گھنٹوں بعد سامنے آئے تھے کہ جوہر ٹاؤن دھماکے کی تحقیقات کے دوران جمع ہونے والے شواہد نے واضح طور پر ’بھارت کے زیر اہتمام دہشت گردی‘ کی نشاندہی کی ہے۔

پنجاب پولیس کے سربراہ اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا تھا کہ دھماکے جس میں 3 افراد ہلاک اور 24 زخمی ہوئے تھے، کا ماسٹر مائنڈ ’ایک بھارتی شہری ہے اور وہ (بھارتی خفیہ ایجنسی) را سے منسلک ہے‘۔

مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ ’آئی جی پی (انسپکٹر جنرل پولیس) نے کہا کہ ہمارے پاس انٹیلی جنس ہے کہ ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی اس میں ملوث تھی لہذا آج میں کسی شک کے بغیر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی ہے‘۔

‘قومی سلامتی کی سیاست’
وزیر داخلہ نے اپوزیشن پر تنقید کی اور کہا کہ ’قومی سلامتی کے مسئلے میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں دیکھ رہا‘۔

انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو ’درست سمت‘ میں واپس آنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ’وزیر اعظم کو خوش قسمت ہیں کہ انہیں اتنی تھکی ہوئی اپوزیشن ملی‘۔

شیخ رشید نے یہ کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پارٹی صدر شہباز شریف کی سیاست میں فرق ہے۔

تاہم انہوں نے قومی سلامتی کے بارے میں فوج کی بریفنگ میں اپوزیشن جماعتوں کی پاک فوج کی مکمل حمایت پر ان کی تعریف کی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے انہوں نے اس طرح کی کوئی ‘شاندار ملاقات’ کبھی نہیں دیکھی تھی اور ہر شخص اس بات پر متفق تھا کہ پاکستان سب سے پہلے ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک یا دو ماہ میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک بار پھر اچھے تعلقات ہوں گے اور یہ سیاست قومی سلامتی اور پاکستان کو ترجیح دینے پر مبنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئندہ انتخابات میں منتخب ہونے والی حکومت کو فوج کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

شیخ رشید نے افغان صورتحال پر توجہ دی اور کہا کہ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کی آمد کی صورت میں سرحدی کیمپوں کے لیے حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

Back to top button