جنرل باجوہ کو توسیع دینے کی افواہ کون لوگ اڑا رہے ہیں؟

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے بار بار کے واضح اعلانات کے باوجود کہ وہ اپنے عہدے میں توسیع نہیں چاہتے اور 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے، حکومت مخالف اسٹیبلشمنٹ کا دھڑا اب بھی یہ افواہیں اڑانے میں مصروف ہے کہ جنرل باجوہ کہیں نہیں جا رہے اور نہ ہی نئے ارمی چیف کا تقرر ہونے والا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ موجودہ حکومت آرمی چیف کو چھ ماہ سے ایک سال تک کی توسیع دینے والی ہے۔ تاہم یہ توجیہہ اس لئے مضحکہ خیز ہے کہ جنرل باجوہ کو اگلے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام تک عہدے پر برقرار رکھنے کی تجویز عمران خان نے دی تھی جسے حکومتی اور فوجی حلقوں دونوں کی جانب سے رد کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ عمران نے ایک خفیہ ملاقات میں ان کی موجودگی میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو تاحیات ان کے عہدے پر برقرار رکھنے کی پیشکش کی تھی جو رشوت کے مترادف تھی لہذا اسے مسترد کردیا گیا۔ کامن سینس بھی یہی کہتی ہے کہ حکومت ایسی کوئی تجویز کیوں مانے گی جو عمران کی جانب سے آئے گی اور جس میں حکومت کو اپنا نقصان ہوتا نظر آئے۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ سنیارٹی کی بنیاد پر نئے آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اس حوالے سے جنرل باجوہ بھی اتفاق کر چکے ہیں لہٰذا ان کے نہ جانے کی باتیں بے سروپا ہیں۔

اس معاملے پر سینئر صحافی انصار عباسی نے ایک تازہ خبر میں کہا ہے کہ اگرچہ آرمی چیف نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور انہیں عہدے میں کوئی توسیع بھی نہیں چاہئے، لیکن اس کے باوجود کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو لندن اور اسلام آباد میں بیٹھی نون لیگ کی قیادت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کی خواہش کے مطابق آرمی چیف کو ابھی کچھ عرصہ اور کام کرنے دیا جائے۔

عجیب بات ہے کہ یہ عناصر حکومت سے توقع کر رہے ہیں کہ جنرل باجوہ کو عہدے پر کام کرتے رہنے کیلئے قائل کیا جائے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں ایک سیکورٹی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے واضح انداز سے کہا تھا کہ وہ مزید توسیع نہیں لیں گے اور نومبر کے آخر تک ریٹائر ہو جائیں گے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے چند ہفتے قبل کور کمانڈرز کے اجلاس کے دوران فوجی کمانڈرز کو بھی اپنے ریٹائرمنٹ پلان کے حوالے سے اعتماد میں لیا تھا۔ بعد میں آرمی چیف نے وزیراعظم سے بات کی تھی اور انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔

دوسری جانب عمران مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف نئے انتخابات اور ان کے نتیجے میں آنے والی نئی حکومت کی تشکیل تک اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں۔ عمران خان کی رائے ہے کہ مستقبل کی نئی حکومت نئے آرمی چیف کا تقرر کرے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور وزیراعظم کو فوج میں اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری کا اختیار نہیں۔ تاہم وہ اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی توجیہہ نہیں دے پائے کیونکہ آئینی اور قانونی طور پر آرمی چیف کی تقرری وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔ 8 نومبر کو لاہور میں اپنی زمان پارک کی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات چیت کے دوران بھی عمران سے سوال کیا گیا کہ کیا جنرل باجوہ کو توسیع ملے گی تو انہوں نے کہا کہ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ اگرچہ جو عناصر وزیراعظم اور نون لیگ کی سینئر قیادت پر اثر انداز ہو رہے ہیں وہ وزیراعظم اور نون لیگ کی قیادت کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں لیکن جو مشورہ وہ دے رہے ہیں وہ عمران کے مطالبات کے مطابق ہے۔ ذرائع کے مطابق، وزیراعظم اور ان کی پارٹی قیادت کو دیا جانے والا مشورہ یہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف کو عہدے پر کام کرتے رہنے کیلئے قائل کیا جائے، حکومت اور قومی اسمبلی کو تحلیل کیا جائے اور عبوری حکومت کیلئے راہ ہموار کی جائے جو 6 ماہ تک سیاست اور معیشت کے استحکام کیلئے کام کرتی رہے۔

بعد میں الیکشن ہوں گے اور نون لیگ کے پاس الیکشن میں کھیلنے کیلئے منصفانہ انداز سے میدان موجود ہوگا۔ تاہم، نون لیگ نے ان آپشنز کو مسترد کر دیا ہے۔ عمران خان موجودہ حکومت کو ہٹانا اور نئے انتخابات چاہتے ہیں۔ وزیراعظم اور حکمران اتحاد کے رہنماؤں کا اصرار ہے کہ حکومت مدت مکمل کرے اور آئندہ انتخابات اکتوبر نومبر 2023ء میں کرائے جائیں۔

لیکن عمران خان نہیں چاہتے کہ موجودہ آرمی چیف ریٹائر ہوجائیں۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ عہدے پر نئی منتخب حکومت کے آنے تک کام کرتے رہیں۔ موجودہ آرمی چیف کے ساتھ اپنی بات چیت کے بعد وزیراعظم آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے رواں ماہ کے دوران طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیلئے تیار ہیں۔ عمران خان یہ بھی نہیں چاہتے کہ موجودہ حکومت نیا آرمی چیف مقرر کرے۔ وزیراعظم اور حکمران اتحاد کی جماعتوں کی رائے ہے کہ اس عہدے پر تقرر وزیراعظم کا استحقاق ہے اور یہ تقرریاں آئین و قانون کے مطابق کی جائیں گی۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کی اندرونی بات چیت کے مطابق یہ لوگ آئندہ سال کے وسط تک انتخابات کیلئے تیار ہیں جبکہ نواز شریف، آصف زرداری اور حکمران اتحاد کے دیگر رہنما مڈ ٹرم الیکشن کیلئے تیار نہیں۔ شہباز شریف کی موجودہ حکومت کے تسلسل کی بجائے عمران خان عبوری نظام کو قبول کر لیں گے لیکن یہ واضح نہیں کہ عمران خان کتنے عرصہ کیلئے عبوری نظام کو قبول کریں گے۔ آئین کے تحت، عبوری نظام 90؍ دن سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔

تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان جو خواب دیکھ رہے ہیں ان کی تعبیر نہیں ہو سکتی اور انہیں دیوانے کے خواب کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ اور فوج کے ادارے کے اتفاق رائے سے نئے آرمی چیف کا فیصلہ ہو چکا ہے جسکا اعلان بہت جلد کر دیا جائے گا۔

Related Articles

Back to top button