افغان طالبان اپنے خیرخواہ پاکستان کو ہی آنکھیں دکھانے لگے


ایک ایسے وقت میں کہ جب حکومت پاکستان افغانستان میں طالبان حکومت کی مالی امداد کی خاطر او آئی سی کا اجلاس منعقد کروا رہی تھی، طالبان حکومت نے پاکستان افغان سرحد پر پاکستانی فوج کی جانب سے نصب باڑ کو اکھاڑ کر پھینکنا شروع کر دیا۔ اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں پاک افغان سرحد کے ایک مقام پر افغان طالبان کا خصوصی دستہ خار داریں اکھاڑ کر پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان ویڈیوز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خار دار تاریں افغانستان کی حدود میں لگائی گئی ہیں حالانکہ پاکستان نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
اس واقعے کی تفصیلات کے مطابق ننگرہار ولایت میں تعینات طالبان حکومت کی انٹیلی جنس کے سربراہ نے ایک خصوصی دستے کے ہمراہ پاکستان کی سرحد پر واقع ڈیورنڈ لائن کا معائنہ کیا اور وہاں لگائی گئی خاردار باڑ کو اتار پھینکا۔ اس موقع پر افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے افسر نے پاکستان فوجی چوکی کے اہلکاروں کو اونچی آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے یہ چوکی غلط جگہ پر بنائی ہے اور خاردار باڑ بھی افغانستان کی حدود میں گھس کر لگائی ہے، اس کے بعد افغان اہلکار نے نہایت بے ہودہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے پاک فوج کے اہلکاروں کو وارننگ دی کہ اگر تم لوگوں نے پیشاب کرنے کی غرض سے بھی ہمارے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی تو یاد رکھنا کہ میں تم لوگوں سے اس طرح لڑوں گا جیسے کسی یہودی دشمن سے لڑا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ ڈیورنڈ لائن کے نام سے منسوب پاک افغان سرحد تقریباً چوبیس سو کلومیٹر پر مشتمل ایک طویل سرحد ہے اور پاکستان نے افغانستان کے علاوہ ایران کی سرحد کے ساتھ بھی باڑ لگانے کا منصوبہ چند برس پہلے شروع کیا تھا۔ پاکستان اس منصوبے پر خطیر رقم خرچ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ باڑ سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل روکنے کے لیے لگائی گئی ہے۔
تاہم دوسری جانب افغان طالبان سے قبل وہاں موجود حکام اس منصوبے کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف یہ رہا کہ جب تک دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا تنازع حل نہیں کر لیا جاتا تب تک اس سرحد پر باڑ لگانا صحیح نہیں ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے کہ جس میں باڑ کو ہٹایا گیا ہے۔
ٹوئٹر پر افغان صحافی بلال سروری نے اس واقعے کی ویڈیو اور تصاویر شیئر کیں جن میں افغان سکیورٹی اہلکار خار دار تاریں اکھاڑنے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور بڑی تعداد میں خار دار تاریں زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔ یہ ویڈیو بنانے والے آپس میں کہہ رہے ہیں کہ ’تاریں بھی لے آؤ‘۔ اس پر ایک دوسرا شخص کہتا ہے کہ ’ہم ساری تاریں ساتھ لے آئے ہیں۔‘ بلال سروری کے ٹویٹ کے مطابق ان خصوصی فورسز کی قیادت طالبان کے انٹیلیجنس چیف ڈاکٹر بشیر کر رہے ہیں۔ ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان فوجیوں کے مطابق یہ خار دار تاریں افغانستان کی حدود کے اندر لگائی گئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں چادر اوڑھے ایک شخص کو دیکھا جا سکتا ہے جو پہاڑ پر موجود دور سے بظاہر پاکستانی اہلکاروں کو خبردار کرتے ہوئے افغانستان کی حدود کے اندر داخل ہونے سے منع کیا۔ اس شخص کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ڈاکٹر بشیر ہیں اور یہ خصوصی فورسز کے دستے کی قیادت کر رہے ہیں۔ ٹویٹ کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں ضلع گوشتہ کے مقام پر پیش آیا ہے اور یہ علاقہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند سے ملتا ہے۔
لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ افغانستان میں پاک افغان سرحد پر فینسنگ کے خلاف احتجاج ہوا ہے۔ سابق دور حکومت میں بھی افغان حکام اس کی مخالفت کر چکے ہیں۔ سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کے دوران افغانستان کی جانب سے متعدد حملے ہو چکے ہیں جس میں پاکستان کا جانی نقصان بھی ہوا ہے۔
رواں سال مئی میں افغانستان کی جانب پاکستان کے ضلع ژوب کے قریب ملنے والی سرحد پر حملہ کیا تھا۔ اس میں حملہ آوروں کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون تھے لیکن بظاہر یہی کہا گیا تھا کہ شدت پسندوں نے پاکستان کی ایف سی کے اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں چار اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملہ تب کیا گیا تھا جب ایف سی کے جوان پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے میں مصروف تھے۔ حکام نے بتایا تھا کہ پاک افغان بارڈر پر سرحد پار فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات رونما ہو چکے تھے جس میں پاکستانی شہریوں اور بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کا حکومت پاکستان کی افغان پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہنا یے کہ ہم گناہ بے لذت میں مصروف ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ جس طالبان حکومت کا خزانہ بھرنے کے لیے عمران خان پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس کروا رہے ہیں انہیں ذرا بھی دید لحاظ نہیں حالانکہ طالبان کے ساتھ کھڑا ہونے کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی دنیا میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ‘فیض، باجوہ اور عمران سے پوچھنا تھا کہ کیا اب مزہ آرہا ہے؟’۔

Related Articles

Back to top button