کیا ججوں کی تضحیک میں وزیر قانون بھی ملوث تھے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے ججوں پر بے بنیاد الزامات لگانے کی پاداش میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان کی چھٹی کے بعد فروغ نسیم کی وزارت قانون بھی خطرے میں ہے بالخصوص انور منصور خان کے اس دعوے کے بعد کہ انہوں نے ججوں کے بارے جو کچھ کہا وہ حکومت اور وزیر قانون کی ہدایات اور مرضی کے عین مطابق تھا۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے انور منصور خان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ جب اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان پر جسٹس فائز عیسی کی مدد کرنے کا الزام لگا رہے تھے تو وزیر قانون فروغ نسیم بھی اس وقت کمرہ عدالت میں تشریف فرما تھے۔ فروغ نسیم نے انور منصور کی جانب سے ججوں پر لگے الزامات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے مگر انور منصور کا اصرار ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی کہا وہ ان کا ذاتی نہیں بلکہ تحریک انصاف حکومت کا مؤقف تھا اور فروغ نسیم اس سے پوری طرح آگاہ تھے۔ ذرائع کے مطابق انور منصور کے اس انکشاف کے بعد وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی وزارت بھی خطرے میں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ویسے بھی وزیراعظم انور منصور کی طرح فروغ نسیم کو بھی حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ سمجھتے ہیں اس لیے اگر انہیں ان سے جان چھڑوانے کا موقع ملا ہے تو وہ اسے ضائع نہیں کرنا چاہیں گے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس کا معاملہ اب تحریک انصاف حکومت کے گلے پڑ چکا ہے۔ کئی مہینوں کی سماعتوں کے باوجود معزز جج کے خلاف صرف شواہد اور تحریری دلائل جمع کرانے میں ناکام رہنے والی حکومت نے اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان کے ذریعے ججز کو دفاعی پوزیشن پر لانے کی اپنی سی کوشش کی مگر انھیں منہ کی کھانا پڑی جس کے بعد اٹارنی جنرل کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا اور حکومت نے اٹارنی جنرل کے بیان سے لاتعلقی اختیار کرکے سپریم کورٹ میں وضاحتی بیان بھی جمع کروا دیا ہے۔
انور منصور خان کی جانب سے مستعفی ہونے کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ ججز پر الزام انہوں نے ذاتی طور پر نہیں لگایا بلکہ یہ تو حکومت کا مؤقف تھا اور اعلی حکومتی شخصیات اس حوالے سے آگاہ تھی جبکہ دوسری جانب وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ انور منصور کا مؤقف سو فیصد جھوٹ ہے اور ججوں پر لگائے گے الزامات کا انہیں علم نہیں تھا۔ یہی نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے دو صفحات پر مشتمل ایک تحریری بیان بھی عدالت میں جمع کروایا گیا ہے جس میں انور منصور خان کی جانب سے دس رکنی بینچ کے معزز ججز پر قاضی فائز عیسیٰ کی طرفداری کے الزام سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے لغو قرار دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انور منصور خان کے بیان کے بعد پیدا ہونے والے تنازعے میں بظاہر انور منصور نے تو مستعفی ہو کر اپنی جان چھڑا لی ہے مگر جاتے جاتے پوری تحریک انصاف حکومت بالخصوص وزیر قانون کو کٹہرے میں کھڑا کر گئے ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان نے انور منصور خان کو گھر بھجوا کر کر عدلیہ کو پیغام دیا ہے کہ ان کے نزدیک جوڈیشری انتہائی محترم ادارہ ہے لہٰذا معزز جج صاحبان کے خلاف کسی قسم کی برداشت نہیں کی جائے گی۔
سارے معاملے میں انور منصور کی قربانی کے بعد ناقدین کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ہی صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کروایا لیکن اب معاملات بگڑنے پر انور منصور کو فارغ کرکے عدلیہ کے ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم کے مابین اب کچھ عرصہ پہلے تک نظر آنے والی ہم آہنگی باقی نہیں رہ گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button