نیا آرمی چیف فوج کوغیرسیاسی رکھ پائے گا یا نہیں؟


معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے ساتھ ایک نیا ڈاکٹرائن بھی آئے گا لہذا دیکھنا یہ ہوگا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے غیر سیاسی ہو جانے کے عزم پر قائم رہتی ہے یا نہیں؟ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ انہیں آنے والی نئی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ’نئے ڈاکٹرائن‘ کا انتظار ہے۔ اگر واقعی سیاست میں عدم مداخلت کے بنیادی اصولوں پر کوئی فیصلہ ہونا ہے تو یہ ذمہ داری کسی ایک فریق کی نہیں ہے، مگر اس بار اگر ایمپائر نے ہمیشہ کیلئے یہ فیصلہ کر لیا کہ کسی بھی طرح کے سیاسی معاملات سے دور ہی رہنا ہے تو شاید آنے والے وقتوں میں ہم یہ کہہ سکیں کہ پاکستان میں گیٹ نمبر 4 کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ البتہ اس فیصلے سے کچھ سیاسی یتیموں کو تکلیف ہو گی اور سیاسی بے روزگاری میں اضافہ ہو گا مگر پھر کوئی نامعلوم نمبر سے نا معلوم کال شاید نہیں آئے گی اور عین ممکن ہے ہم بحیثیت قوم اپنی کسی سمت کا تعین کر سکیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ہر تین سال بعد نومبر کے مہینہ میں ہمارا پسندیدہ موضوع نئے آرمی چیف کی تقرری یا توسیع ہی رہتا ہے۔ پھر اگر ISI کے سربرا ہ کا تقرر یا ٹرانسفر ہو تو میڈیا میں ایک بحث چھڑ جاتی ہے کیونکہ یہ ساری باتیں مستقبل کی سیاست سے جڑی ہوتی ہیں۔ اگر نئی اسٹیبلشمنٹ کی کوئی واضح نئی ڈاکٹرائن آتی ہے تو وہ کن اصولوں پر استوار ہوتی ہے۔؟ اگر سیاست میں مداخلت، ختم کرنی ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ فوج کے معاملات فوج ہی دیکھے سپریم کورٹ کی طرح سنیئر ترین جنرل آرمی چیف ہو اور توسیع لینے یا دینے کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ دوسری ڈاکٹرائن، سیاست دانوں کو طے کرنی ہے۔ مسئلہ صرف فوج کی سیاست میں مداخلت کا نہیں بلکہ سیاسی حکومتوں کی انتظامیہ اور پولیس میں مداخلت کا بھی ہے جن کو اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ آج پولیس اور بیوروکرویسی بڑی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ کوئی جیالہ ہے، کوئی شیر کا ماننے والا تو کوئی بلا اٹھائے شارٹ لگانے کو تیار نظر آتا ہے۔ کیا پولیس رولز اور کیا سول سروس! اور اسی وجہ سے ہماری سویلین حکومتیں ناکام ہوئیں۔

مظہر عباس کے مطابق تیسری ڈاکٹرائن عدلیہ کو طے کرنی ہے۔ آج سے 60 سال پہلے اگر عدلیہ نظریہ ضرورت کو رد کر دیتی تو شاید پاکستان جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوجاتا۔ پھر 1970 میں عاصمہ جیلانی کیس میں نہ صرف جنرل یحییٰ خان کو آمر اور مطلق العنان کہا گیا مگر نظریہ ضرورت کو مسترد کر دیا گیا۔ 1972 کا عبوری آئین اور 1973کا مستقل آئین اس سمت پہلا مثبت قدم تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اگر ادارہ خود ہی اپنی ڈاکٹرائن بدل دے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ یہی کچھ 1977میں بیگم نصرت بھٹو بہ مقابلہ آرمی چیف کیس میں ہوا جب سپریم کورٹ نے پانچ سال پہلے اپنے ہی کئے گئے فیصلے کے بر خلاف نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیا اور پھر 1999 میں ظفر علی شاہ کیس میں تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار ہونے کی وہ مثال قائم کی گئی جس کی عدلیہ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پہلی بار آرمی چیف کو آئین میں ترامیم کا بھی اختیار مل گیا اور وہ بھی بن مانگے۔ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو مسترد کیا گیا اور 3 نومبر کے ایمرجنسی کے اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا گیا۔ 2008 کے الیکشن کے نتیجے میں پی پی پی برسر اقتدار آئی تو جنرل مشرف کو استعفیٰ دینا پڑا، ایک بار پھر ذمہ داری سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ پر آگئی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ 2008 سے 2013 تک پہلی بار کسی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اعلیٰ عدلیہ طاقتور ضرور نظر آئی مگر ہمارے ہاں یہ مسئلہ بھی رہا ہے کہ جو زیادہ طاقت ور یا بااختیار ہو جاتا ہے وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال اور دوسرے کے اختیار کو سلب کرناشروع کر دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ آزاد ہونے کے باوجود خود کو بہت زیادہ ریفارم نا کر سکی اور سیاسی ہوتی چلی گئی۔پارلیمنٹ نے پھر بھی ریفارمز کیں اور پہلی بار 2008 کے بعد صدر آصف علی زرداری نے صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کئے اور 18ویں ترمیم سے صوبوں کو اختیارات منتقل کیے، البتہ صوبوں سے مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی میں خو د سیاست دان رکاوٹ بنے اور یوں اپنی نرسری تباہ کی،ان خامیوں کے باوجود پہلی بار 2013 میں پر امن اقتدار کی منتقلی دیکھنے کو ملی، اس طرح صدر زرداری نے اپنی میعاد پوری کی اور نئے صدر کو اقتدار منتقل کیا۔ نواز شریف نے حکومت بنائی تو نئی ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ان پر اعتراض کر دیا اور چار حلقے دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ یہ کوئی غیر منطقی ڈیمانڈ نہیں تھی۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ کی حکومت نے مطالبہ مسترد کر دیا۔ ردعمل میں عمران نے حکومت مخالف تحریک کا اعلان کر دیا ۔ دوسری طرف ڈاکٹر علامہ طاہر القادری بھی سڑکوں پرتھے کہ ماڈل ٹائون کے قریب منہاج القرآن کے ہیڈ کوارٹرز پر پولیس سے تصادم ہو گیا جس میں کئی افراد مارے گئے۔ اس صورت حال کو مسلم لیگ (ن) نے اسی طرح مس ہینڈل کیا جس طرح 1977میں بھٹو صاحب نے کیا تھا۔ مگر یہ سیاسی معاملات تھے اس میں ایجنسیوں کا رول بنتا ہی نہیں تھا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ 2014 کے دھرنے میں بہت واضح طور پر اس وقت کے اعلیٰ افسران کا کردار نظر آتا ہے مگر بات ’مارشل لا‘ تک اس لئے بھی نہیں گئی کہ پارلیمنٹ کھڑی ہو گئی اور پھر حکومت اور اپوزیشن نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنا دیا۔ اس کمیشن کے فیصلے کو تسلیم بھی کیا گیا اور یوں اس حکومت نے بھی اپنی میعاد پوری کی۔ لیکن الیکشن 2018 آنے سے پہلے کچھ واقعات نے سیاست میں مداخلت کو دوبارہ توانا کردیا۔ 2016ءمیں پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے میاں صاحب کو پہلے نااہل قرار دیا۔ پھر نیب عدالت نے انہیں سزا دے دی۔ اس کو اگر عدالتی فیصلہ کے طور پر لے بھی لے لیں جو کہ وہ ہے اختلاف ہونے کے باوجود تو پھر 2018 کے شروع میں بلوچستان میں جس طرح عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے خلاف بغاوت کروائی گئی اور نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی۔ پھر 2018میں تحریک انصاف کو کامیابی ملی مگر کراچی میں جو کچھ ہوا وہ سیاست میں مداخلت کی بدترین مثال ہے اب BAP ، MQM اور مسلم لیگ (ق) اور جنوبی پنجاب محاذ ملا کر حکومت بنوا دی گئی۔

مظہر عباس نے یاد دلایا کہ حال ہی میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ تسلیم کیاکہ فوج نے سیاست میں مداخلت جیسی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انکے مطابق اب ادارے کی سطح پر فیصلہ ہو گیا ہے کہ کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری جانب ایک بار پھر لانگ مارچ شروع ہو گیا۔ سیاست کا یہ طوفان غالباً نئی تقرری پر ہی تھمے گا۔ لیکن بڑا فیصلہ یہ نہیں کہ اگلا آرمی چیف کون ہو گا بلکہ سوال یہ ہے کہ نئی ڈاکٹرائن کیا ہو گی۔ نیوٹرل ایمپائر کے چیمپئن ایمپائر کو نیوٹرل رہنے دیں تو بہترہے۔ ہم اپنی سیاسی تاریخ کے نازک ترین موڑپر ہیں۔ ناکام ریاست سے بچنے کا واحد راستہ سیاسی و معاشی استحکام اورعدم مداخلت کا اصول ہے۔ ورنہ شاید بہت دیر ہو جائے۔

Related Articles

Back to top button