5 جولائی 1977ء: وہ مارشل لا کی سیاہ رات

5 جولائی 1977ء، رات پونے 2 بجے کا وقت، پنڈی میں وزیرِاعظم کی رہائش گاہ۔
مجھے اپنی والدہ کی چیختی ہوئی آواز آئی، ‘جلدی اٹھو! کپڑے بدلو، فوج نے قبضہ کرلیا ہے، فوج نے قبضہ کرلیا ہے’۔
A Coup؟ مگر کیوں؟’
پیپلز پارٹی اور پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے درمیان تو چند گھنٹے قبل معاہدہ ہوگیا تھا۔ میرے والد، آرمی چیف اور اپنے وزرا کو فون کرنے میں مصروف تھے۔ اسی دوران حفیظ پیرزادہ کی بیٹی کا فون آتا ہے۔
‘وہ میرے والد کو مارتے پیٹتے لے گئے ہیں۔’
دوسرا فون گورنر صوبہ سرحد کا تھا جس کے ساتھ ہی فون لائن کٹ جاتی ہے۔ میری والدہ کا چہرہ پیلا پڑرہا تھا۔ پولیس کا ایک سپاہی چھپتے چھپاتے ہمارے ذاتی ملازم عرس سے سرگوشی میں کہتا ہے، ‘صاحب کو اطلاع دو، فوجی انہیں مارنے آرہے ہیں۔’
میرے والد عرس سے کہتے ہیں ‘میری زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے’۔
اس دوران آرمی چیف جنرل ضیاالحق کی فون کال مل جاتی ہے۔ جنرل معذرت کرتے ہوئے کہتا ہے، ‘سر مجھے یہ کرنا پڑا۔‘
محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی کتاب ‘دخترِ مشرق’ میں 4 اور 5 جولائی 1977ء کی شب کے بھیانک لمحات کو یاد کرتے ہوئے جب یہ لکھ رہی تھیں تو اس وقت ان کی عمر صرف 24 سال تھی اور پھر یہیں سے ان کی طویل نظر بندی اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
جنرل ضیا الحق ذوالفقار علی بھٹو سے ملتے ہوئے
ایک نشست میں جنرل ضیا الحق اور ذوالفقار علی بھٹو ایک ساتھ
44 سال قبل 5 جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور پھر 4 اپریل 1979ء کو ان کو پھانسی لگنے کے بارے میں سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں کالم لکھے جاچکے ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ کتاب وہ ہے جو جنرل ضیا الحق کے نائب جنرل فیض علی چشتی نے لکھی۔ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز کتاب وہ ہے جو بھٹو صاحب کو پھانسی دینے والے بینچ کے رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے لکھی جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ‘اس فیصلے کے لیے مجھ پر بڑا دباؤ تھا اور میں اس پر نادم رہوں گا’۔
بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹنے اور پھر پھانسی دینے میں جرنیلوں اور ججوں نے جو کردار ادا کیا تھا اس بارے میں جب ہمارے یہ جنرل اور جج بڑی معصومانہ سادگی سے اپنی بے بسی اور بے قصور ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ لکھتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو اور حلق خشک ہورہے ہوں گے۔
بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بارے میں سب سے زیادہ شہرت یافتہ کتاب مولانا کوثر نیازی کی ‘اور لائن کٹ گئی’ سمجھی جاتی ہے۔ مولانا کوثر نیازی لکھتے ہیں کہ
’ابّا جان! میرا بیٹا رؤف جسے سب گھر والے پیار سے روفی کہتے ہیں میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے ہِلا رہا تھا۔ اس نے دوسری مرتبہ پکارا ہی تھا کہ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے چہرے پر پریشانی کی لکیریں تھیں۔ میرے ذہن اور جسم سے نیند اُڑ گئی۔ یہ 4 اور 5 جولائی 1977ء کی درمیانی رات تھی۔ میں 7 بجے رات کابینہ کے اجلاس سے فارغ ہوکر وزیرِاعظم ہاؤس سے گھر پہنچا تھا۔ ملک کے سیاسی حالات ابتر ہوچکے تھے۔ ہنگامے، ہڑتالیں، جلوس، جلسے جو کچھ ہورہا تھا، اب اسے روکنا کسی کے بس میں نہ رہا۔
’کابینہ کی اس میٹنگ میں جنرل محمد ضیا الحق نے بھی شرکت کی تھی اور اجلاس ختم ہونے کے بعد وہ وزیرِاعظم بھٹو کے ساتھ ہی ایک کمرے میں تشریف لے گئے تھے۔ اچانک جنرل صاحب مسٹر بھٹو کے کمرے سے بڑی تیزی سے باہر آئے، وہ مجھے بڑی عجلت میں لگے۔ عام دنوں میں ان کا ہاتھ ملانے کا انداز ایسا ہوتا جیسے ان کے ہاتھوں کی گرفت شاید چھوڑنے ہی نہ پائے مگر اس دن جب میں نے ان سے ہاتھ ملایا تو وہ بمشکل انگلیاں ہی ملا پائے۔ ان کے چہرے سے ان کی مخصوص مسکراہٹ بھی غائب تھی۔ میرا ماتھا وہیں ٹھنکا۔ ایسا لگا جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ میر افضل مجھے وزیرِاعظم ہاؤس سے میری رہائش گاہ پر ڈراپ کرکے چلے گئے۔ گھر میں داخل ہوکر میں نے اپنے بیٹوں کو بلایا۔ خصوصی ہدایت دیں، چیک بُک روفی کے حوالے کی، اسی دوران پنڈی کے ایک ایم این اے کا فون آیا، میں نے ان سے بھی یہ کہا ‘وقت تیزی سے گزر رہا ہے، کسی بھی لمحہ فوج قبضہ کرسکتی ہے’۔ رات کو تقریباً ڈیڑھ، پونے دو بجے کے قریب سونے کے لیے لیٹا مگر کچھ ہی دیر بعد میرے بیٹے نے مجھے جگا دیا۔
‘بابا جان، کچھ آدمی چھت پر چڑھ آئے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔
’میں نے سامنے کھڑے فوجیوں سے پوچھا ‘شوٹ کرنا ہے یا گرفتار کروگے؟
’سر، گرفتاری چاہیے
’میں نے کپڑے تبدیل کیے اور یہ جاننے کے لیے کہ وزیرِاعظم کس حال میں ہیں، انہیں ٹیلی فون کرنا چاہا مگر ایک کیپٹن نے کہا ’ٹیلی فون کٹ چکے ہیں۔‘