آرمی چیف جنرل باجوہ پاکستانی سیاست کا محور و مرکز کیسے بنے؟


2018 میں معروف عالمی جریدے فوربز کی جانب سے دنیا کے 68ویں نمبر پر طاقتور ترین شخص قرار پانے والے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ملک کی سب سے بااثر شخصیت قرار دیا جاتاہے جو اس وقت پاکستانی سیاست کا محور و مرکز بھی ہیں اور حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔
اپنی مدت ملازمت میں توسیع پانے والے جنرل باجوہ پچھلے چار برس سے ملک کے طاقتور ترین عہدے پر فائز ہیں اور ابھی ان کی مدت ملازمت کے دو سال باقی ہیں۔ یاد رہے کہ انہیں وزیر اعظم نواز شریف نے آؤٹ آف ٹرن آرمی چیف لگایا تھا اور بعد ازاں انہیں پر خود کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا الزام بھی لگایا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے سربراہ کی حیثیت سے 29 نومبر 2016 کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اس سے پہلے وزارت دفاع کی جانب سے وزیراعظم کو نئے آرمی چیف کے لیے 5 سینئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرلز کی سمری بھیجی گئی تھی جن میں پہلے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات سب سے سینئر تھے جبکہ دیگر سینئر افسران میں لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم، لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور لیفٹیننٹ جنرل اکرام الحق کا نام شامل تھا۔
لیکن نواز شریف نے بطور وزیراعظم جنرل قمر جاوید باجوہ کو آوٹ آف پروموشن دینے کا فیصلہ کیا جو ہمیشہ کی طرح غلط ثابت ہوا اور ان کے گلے پڑ گیا۔ بطور آرمی چیف جنرل باجوہ کا اب تک کا دور انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہوا ہے۔ سیاسی حلقے انہیں ملک میں عسکری جمہوریت یا ہائبرڈ نظام حکومت کا باوا آدم یا بانی بھی قرار دیتے ہیں۔ جنرل باجوہ اس لحاظ سے منفرد فوجی سربراہ ثابت ہوئے کہ پاکستانی سیاسی قیادت نے براہ راست ان پر نام لیکر سیاسی معاملات میں کھلی مداخلت کا الزام لگایا۔ تاہم جنرل باجوہ کے قریبی رفقاء اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب فوج بطور ماتحت ادارہ حکومت کا ساتھ دیتی ہے تو اپوزیشن کی جانب سے اس پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگ جاتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جب اپوزیشن کی کوئی جماعت اقتدار میں آئے گی تو تب بھی فوج کا اسی طرح ساتھ دے گی جس طرح موجودہ حکومت کا ساتھ دیتی ہے۔ لیکن تاریخی شواہد اس موقف کے برعکس ہیں کیونکہ ماضی قریب میں پیپلزپارٹی اور نوازلیگ دونوں کے وزرائے اعظم یعنی یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو اپنے اقتدار کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور عدالتوں کے ذریعے انہیں نااہل قرار دلوا کر فارغ کروا دیا گیا۔ اور پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ دونوں مرتبہ اس عمل کے پیچھے فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔
اپنی تین سالہ مدت ملازمت پوری ہونے پر وزیراعظم عمران خان نے جنرل باجوہ کو مزید تین سال کی توسیع دی اور کرپشن کے مقدمات کا سامنا کرنے والی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی اس عمل کی پارلیمنٹ میں حمایت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے جنرل باجوہ کو توسیع دینے کا اعلان کرتے وقت یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں مسئلہ کشمیر کے تناظر میں توسیع دی جا رہی ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کے دور اقتدار میں ہی سقوط کشمیر کا واقعہ رونما ہوا اور بھارت نے کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کر کے اس پر قبضہ کرلیا۔
اب عسکری حکام کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر قیادت پاک فوج کے سامنے ایک بڑا چیلنج ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار بھی ہے۔ اس کے علاوہ جنرل جاوید پہلے فوجی سربراہ ہیں جن سے ایک مخصوص اصطلاح باجوہ ڈاکٹرائن منسوب کی جاتی ہے۔جس سے مراد جنرل باجوہ کا ملک میں امن کی صورتِ حال برقرار رکھنے کی کوششیں، سویلین اور ملٹری تعلقات پر ان کے نظریات اور بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کے سفارتی تعلقات بہتر کرنے میں انکی بطور فوجی سربراہ معاونت شامل ہیں۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ ڈاکٹرائن دراصل باجوہ عمران معاہدہ ہے جس کے تحت پہلے قمر باجوہ اپنے پسندیدہ کرکٹر عمران خان کو اقتدار میں لائے اور پھر انہوں نے جنرل باجوہ کو جوابی توسیع دی۔ یعنی میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چن۔
آرمی چیف بننے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ نت نئے چیلنجر سے نبردآزما ہیں بالخصوص مدت ملازمت میں توسیع پانے اور کپتان کی ناکام حکومت کو قائم رکھنے میں ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چار سال قبل جنرل راحیل شریف کی توسیع کی حسرت پوری نہ ہونے پر رخصتی کے بعد آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز تھے جن میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ، جنرل راحیل شریف کے متاثر کن امیج کے بعد اپنی الگ پہچان بنانا، فوج کے سیاسی کردار دے ناراض وزیراعظم نواز شریف سے ریاستی امور پر ہم آہنگی، سرفہرست قرار دیے جا سکتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے چیف بننے کے فوری بعد نواز شریف کے خلاف ڈان لیکس کا معاملہ اٹھانے والے تب کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کا نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تبادلہ کیا اور رضوان کو بعد ازاں کرپشن کے الزامات پر استعفیٰ دے کر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کرکے جنرل باجوہ نے نواز شریف کے تحفظات دور کیے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جنرل باجوہ کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر خود بھی رضوان اختر کو ان کے عہدے سے فارغ کرنا چاہتے تھے۔
بعد ازاں جنرل باجوہ نے مستقبل کے اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل عاصم منیر کو محض آٹھ مہینے بعد ہی انکے عہدے سے فارغ کرکے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید مغل کو نیا ایجنسی چیف مقرر کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف جنرل باجوہ کے ساتھ ساتھ جنرل فیض حمید کو بھی ان کے سیاسی کردار کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے منصوبوں میں ان کا برابر کا ہاتھ تھا۔ تاہم عسکری ذرائع ان الزامات کو سختی سے تردید کرتے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ نواز شریف کی بے دخلی یا عمران خان کے وزیراعظم بنتے وقت تو جنرل فیض حمید آئی ایس آئی چیف کے عہدے پر فائز ہی نہیں ہوئے تھے۔ لیکن نواز شریف کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فیض حمید تب بھی آئی ایس آئی میں ایک طاقتور جرنیل تھے جن کے ایماء پر تحریک لبیک نے راولپنڈی کے فیض آباد چوک میں ان کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا ۔
جہاں تک جنرل قمر باجوہ کا تعلق ہے تو ان کے خاندان کا تعلق گکھڑ منڈی سے ہے۔ 11 نومبر 1960 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیدا ہونے والے قمر باجوہ نے 24 اکتوبر 1980 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کا تعلق پاک فوج کی یونٹ 16 بلوچ رجمنٹ سے ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹری کیلیفورنیا امریکا کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ سٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے بھی گریجویٹ ہیں۔ جنرل باجوہ انفینٹری اسکول میں انسٹرکٹر کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ بری افواج کے سربراہ مقرر ہونے سے قبل جنرل باجوہ چیف آف دی آرمی سٹاف راحیل شریف کے پرنسپل سٹاف آفیسر اور جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل آف دی ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ خیال رہے کہ انسپکٹر جنرل آف دی ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن وہ عہدہ ہے جس پر آرمی چیف مقرر ہونے سے قبل جنرل راحیل شریف بھی فائز تھے۔ جنرل قمر باجوہ اقوامِ متحدہ کے تحت کونگو میں پاک فوج کے امن مشن کی قیادت بھی کر چکے ہیں جب کہ انفینٹری اسکول، کوئٹہ میں کمانڈانٹ اور پاک فوج کی سب سے بڑی 10 کور کے کمانڈر کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ تحریک انصاف کے اسلام آباد میں 2014 کے دھرنے کے دوران کور کمانڈر راولپنڈی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انکا تعلق فوج کی جس انفینٹری بلوچ رجمنٹ سے ہے وہ اس رجمنٹ سے آرمی چیف بننے والے چوتھے افسر ہیں، ان سے پہلے پاک فوج کے سربراہان بننے والے جنرل یحییٰ خان، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کا تعلق بھی اسی رجمنٹ سے تھا اور ان تینوں کو سیاست کا ٹھرک تھا جس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا۔
جنرل باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی حکومتوں اور تین وزرائے اعظموں کے ساتھ کام کیا تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کا ساتھ صرف آٹھ ماہ کا تھا۔ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ادوار میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے تعلقات کو بد ترین قرسر دیا جاتا ہے۔ مبصرین کے خیال میں نواز شریف کیخلاف الزامات پر پاناما جے آئی ٹی کا بنایا جانا، بلوچستان حکومت ک! برطرف ہونا، نواز شریف کی نا اہلی اور پھر قید، فوجی ترجمان کا 2018 کو تبدیلی کا سال کہنا، الیکشن کی رات آر ٹی ایس کا بیٹھ جانا، فوج کا گنتی سے پہلے پولنگ آفیسرز کو پولنگ اسٹیشنز سے نکال دینا، پھر الیکشن نتائج پر حزب اختلاف کا اعتراض، یہ سب ایسے واقعات ہیں جن سے فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں اور اپوزیشن حلقے ان تمام معاملات میں جنرل باجوہ کی اسٹیبلشمینٹ کا واضح کردار دیکھتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف بھی پانامہ کیس اور 2018 کے انتخابات میں انہیں اقتدار سے بے دخل کروانے کا الزام آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف پر لگا چکے ہیں۔ نا اہل ہونے کے بعد نواز شریف نے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہا تھا کہ ایسا ملک نہیں چل سکتا جہاں دو متوازی حکومتیں ہوں۔ اب نواز شریف کا یہ مؤقف ہے کہ پاکستان میں ریاست سے اوپر بھی ایک ریاست موجود ہے جسے وہ نہیں مانتے۔ یہ بھی ایک سچ ہے کہ جنرل باجوہ کے دور میں بے آوازوں کی آواز کہلانے والے میڈیا اور عوامی سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادیوں میں واضح کمی آئی ہے۔ انکے دور میں کمزور افراد اور اداروں نے مثبت رپورٹنگ اور سیلف سنسرشپ کے تحت اپنی نئی حدود کو پہچانا اور اسی کے مطابق سرگرم عمل ہو گئے۔ مقامی میڈیا میں تمام حساس موضوعات پر اشاروں میں دبی دبی بات ہوئی لیکن بین الاقوامی میڈیا بلاجھجک ان پر بات کرتا رہا۔ عسکری ذرائع کا کہنا یے کہ کرپشن اور موروثی سیاست کو ناپسند کرنے والے پاکستانی، جنرل باجوہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ جنرل راحیل شریف کے دور میں ان دونوں ایشوز پر کوئی عملی نتائج نہیں آ سکے تھے۔ مدت ملازمت میں توسیع پر فوجی مبصرین کا کہنا ہے کہ توسیع کے بعد جنرل باجوہ ماضی کے مقابلے میں نسبتاً پرسکون اور بہتر انداز میں کام کر رہے ہیں کیونکہ آرمی کی موجودہ لیڈر شپ کے سبھی لیفٹیننٹ جنرلز کا انتخاب خود جنرل باجوہ نے کیا ہے۔
تاہم 11 اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی سیاسی سرگرمیوں نے فوجی قیادت کو تحریک انصاف حکومت کی بے جا طرفداری سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے جسکی ایک واضح مثال کراچی واقعہ کی انکوائری رپورٹ ہے جو وزیر اعظم کی مخالفت کے باوجود آرمی چیف کے حکم پر کروائی گئی جسکی بنیاد پر آئی ایس آئی اور رینجرز کراچی کے دو بریگیڈیئرز اوردو کرنل حضرات کو معطل کر کے ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ آرمی چیف کے اس اقدام سے جہاں اپوزیشن حلقوں میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہونے کا امکان ہے وہیں وزیراعظم سے دوریاں پیدا ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ توسیع پانے کے بعد فوجی سربراہان کے اعتماد میں کمی آجاتی ہے اس لئے لگتا نہیں کہ آنے والے سال جنرل باجوہ کے لئے اس قدر آسان ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button